[ہفتہ ٴ غزل] ۔ گلِ خورشید کھلاؤں گا، چلا جاؤں گا ۔ اشرف جاوید

غزل 

گلِ خورشید کھلاؤں گا، چلا جاؤں گا
صبح سے ہاتھ ملاؤں گا، چلا جاؤں گا

اب تو چلنا ہے کسی اور ہی رفتار کے ساتھ!
جسم بستر پہ گراؤں گا، چلا جاؤں گا

آبلہ پائی ہے، رسوائی ہے، رات آئی ہے
دامن اک اک سے چھڑاؤں گا، چلا جاؤں گا

ہجر صدیوں کے تحیّر کی گِرہ کھولے گا
اک زمانے کو رُلاؤں گا، چلا جاؤں گا

بس! تجھے دیکھوں گا آتے ہوئے اپنی جانب
پھول قدموں میں بچھاؤں گا، چلا جاؤں گا

آسماں پھیل گیا دشتِ جنوں کی صورت
اب وہاں خاک اُڑاؤں گا، چلا جاؤں گا
عشق بھی حسن بھی ضم ہوتا دکھاؤں گا تجھے
جب دیا رقص میں لاؤں گا، چلا جاؤں گا

زندگی بھر کوئی حیرانی بسے گی اس میں 
گھر ترے دل میں بناؤں گا، چلا جاؤں گا

جس طرف بھول کے بھی دیکھا نہیں آج تلک
قدم اس سمت بڑھاؤں گا، چلا جاؤں گا

اشرف جاوید

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں