[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تعارف

ہفتہ ٴ غزل

ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہونی چاہیے کہ نہیں تاہم امرِ واقعہ یہ ہے کہ ہم رعنائیِ خیال پر ایک عدد ہفتہ، غزل کے نام کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ہفتہ خالصتاً اردو غزل کے نام۔

اس ہفتہ ٴ غزل میں ہم ایک ہفتے تک یعنی یکم جنوری سے سات جنوری تک روزانہ منتخب کلام پیش کریں گے اور ساتھ میں کچھ ہلکے پھلکے مضامین بھی۔ چند منتخب غزلیات کے ساتھ روز ایک معروف غزل بھی پیش کی جائے گی۔ یوں تو معروف غزل کی تعریف ممکن نہیں ہے تاہم ہم نے زیادہ تر وہ غزلیں چنی ہیں کہ جنہیں گایا بھی گیا ہے اور اُنہیں عوام و خواص میں قبولِ عام نصیب ہوا ہے۔

انتخاب:

ہفتہ ٴ غزل میں پیش کی جانے والی غزلیات ہمارا اپنا انتخاب ہیں یعنی جو غزلیات ہمیں اچھی لگی ہم نے اُنہیں چن لیا۔ پہلے ہماری زیادہ تر کوشش یہ تھی کہ یہاں ایسا کلام پیش کیا جائے جو انٹرنیٹ کی دنیا میں موجود نہ ہو اور اسی لئے زیادہ تر کلام ہم نے خود ٹائپ کیا۔ تاہم ہم نے اس کام میں اتنا وقت لگا دیا کہ اس میں سے بھی بہت سا کلام اب انٹرنیٹ پر شامل ہو چکا ہے۔ بہرکیف چونکہ ہم نے یہ کلام ہفتہ ٴ غزل کے لئے منتخب کیا ہے سو ہم نے کچھ چیزیں ایسی بھی شامل کر دی ہیں جو انٹرنیٹ پر موجود تو ہیں لیکن کونوں کھدروں میں پڑی ہیں۔

زمانہ:

اگر زمانے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پیش کی جانے والی غزلیات نہ تو بالکل جدید ہیں اور نہ ہی قدیم یعنی یوں سمجھیے کہ روزِ حاضر سے دس پندرہ سال ادھر اُدھر کا زمان ہوگا جہاں سے یہ غزلیات اخذ کی گئی ہیں اور کچھ شاید اس کلیے سے بھی ماورا ء ہوں۔

ترتیب:

ہفتہ ٴ غزل میں غزلیات نہ تو حروفِ تہجی کے اعتبار سے پیش کی جائیں گی اور نہ ہی شعراء میں تقدیم و تاخیر کا خیال رکھا جائے گا بلکہ ہماری خواہش ہے کہ مختلف رنگوں کے پھولوں سے ایک گلدستہ سا بنا کر روز پیش کیا جائے کہ جس میں رنگ ہا رنگ گلوں کی موجودگی ایک حسین امتزاج کی مانند محسوس ہو۔ اور ہر طرح کے شائقین ِ غزل کے تشفی کا سامان ہو سکے۔

رسائی :

اگر آپ اس ہفتہ ٴ غزل میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اپڈیٹ رہنے کے لئے یا تو آپ کو گاہے گاہے رعنائیِ خیال کا دورہ کرنا ہوگا یا پھر آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ سائیڈ بار کے آخر میں دیے گئے"سبسکرپشن بذریعہ ای میل" کے خانے میں اپنی ای میل درج کر دیجے۔ نئی پوسٹس کی اطلاع آپ تک بذریعہ ای میل پہنچ جائے گی۔

آپ کی آراء:

اگر آپ ہفتہ ٴ غزل پر یا اس میں شامل کردہ کلام یا مضامین پر اپنی اچھی یا بری رائے دیں گے تو ہمیں خوشی ہوگی۔ آپ چاہیں تو اپنا تبصرہ ہر پوسٹ کے آخر میں درج کر سکتے ہیں ۔ مزید براں اگر آپ کسی اور ذریعے سے اپنا تبصرہ ہم تک پہنچانا جانتے ہیں تو یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔

اغراض و مقاصد:

اس ہفتہ ٴ غزل سے ہمیں کوئی مالی منفعت ہر گز درکار نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس سے کسی اور قسم کے فوائد اُٹھانے کے خواہاں ہیں تاہم اپنی اور باذوق قارئین کے ذوق کی تسکین اگر ایک پوسٹ سے بھی ہوتی ہے تو یہ ہمارے لئے باعثِ مسرت ہوگا۔

خیر اندیش

محمد احمدؔ

ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا

غزل 

ستارے مُڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا
کہ دل، یہ پھول ہمیشہ سے کب کِھلا ہوا تھا

کسی غزال کا نام و نشان پوچھنا ہے
تو پوچھیے، میں اُسی دشت میں بڑا ہوا تھا

کمال ہے کہ مِرے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے
وہ شخص جیسے کہیں اور بھی گیا ہوا تھا

ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے، مگر کب تک
میں پوچھتا ہوں کہانی کے بعد کیا ہوا تھا

پھر ایک دن مجھے اپنی کتاب یاد آئی 
تو وہ چراغ وہیں تھا، مگر بجھا ہوا تھا

خوشی سے اُس کو سہارا نہیں دیا میں نے
مگر وہ سب سے اکیلا تھا، ڈوبتا ہوا تھا

کہ جیسے آنکھ جہانِ دگر میں وا ہوگی
بتا رہے ہیں کہ میں اِس قدر تھکا ہوا تھا

ادریس بابر

بشکریہ : فلک شیربھائی

مژگاں تو کھول

مژگاں تو کھول
محمد احمدؔ​

اگر آپ تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ نے کئی ایک جگہ سنا اور پڑھا ہوگا کہ سنہ سترہ سو فلاں فلاں میں فلاں صاحب کی ولولہ انگیز تقریر سے قوم میں بیداری کے لہر دوڑ گئی ۔ اور پھر 60 سال بعد فلاں فلاں واقعے کے ظہور پذیر ہونے سے ملت جاگ اُٹھی ۔ اور پھر 90 سال بعد فلاں سانحے یا جنگ وغیرہ سے قوم کے جوان بیدار ہوگئے۔ اگر دیکھا جائے تو ہر سو پچاس سال بعد اُٹھنے والی یہ بیداری کی لہریں بتاتی ہیں کہ بیچ کے عرصے میں قوم سوتی رہی ہے اور اُسے جگانے کے لئے درونِ خانہ کوئی بندوبست نہ تھا سو بیرونی بیداری کی لہریں ادھر اُدھر سے تشریف لائیں اور قوم کو خوابِ غفلت سے اس بُری طرح جگایا کہ قوم بھونچکا رہ گئی۔ اور اس نو بیدار قوم کی حالت دیکھ کر شاعر نے کہا کہ: 

ہر کہ اُو بیدار تر، پُر درد تر​

مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ منفی ذہنیت کے لوگوں نے قوم کی میٹھی نیند میں دخل اندازی کرنے والے ان عناصر کو ہیرو بنا کر پیش کیا اور نیند سے نئی نئی جاگی قوم صورتحال کو کماحقہ سمجھ نہ پائی۔ نتیجتاً یہ عناصر آج تک ہیرو لکھے اور پُکارے جاتے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ اُس زمانے میں قوم کا کوئی نیریٹو یعنی بیانیہ نہیں ہوا کرتا تھا ورنہ ہر سو پچاس سال بعد یہ بیانیہ بیداری کی لہر کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ 

ہمارے ہاں خوابِ غفلت اورنام نہاد بیداری کا کھیل اس تسلسل سے کھیلا جا رہا ہے کہ اگر کچھ عرصے بیداری کی لہر نہ اُٹھے تو اکثر لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں تاہم عقلمندی کا تقاضہ یہ ہےکہ اگر آپ کو اس قسم کی کوئی تکلیف ہو بھی تو ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور ناصر کاظمی کی طرز پر شکایت کو ادب کا جامہ پہنایا جائے۔ یعنی طبیب سے کہا جائے کہ "دل میں اِک لہر سی اُٹھی ہے ابھی!" اور جب طبیب مکرر استفسار کرے کہ "دل میں؟" تو کہیں "تھوڑا سا نیچے" ۔ ویسے ہمارا خیال ہے کہ ناصر کاظمی کے ہاں اتنی لہریں نہیں اُٹھیں تھیں جتنی غلام علی صاحب کے بطن سے اُٹھیں ۔ تاہم جن لوگوں نے غلام علی کو نہیں سُنا اُن کے ہاں تو محض سردی اور گرمی کی لہریں ہی رہ جاتی ہیں جو میڈیا والے خبروں کی قلت کے دنوں میں اٹھایا کرتے ہیں۔ 

آپ کہہ رہے ہوں گے کہ ہم پٹری سے اُتر رہے ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم کسی طرح پٹری پر چڑھ جائیں تاکہ زندگی کی گاڑی کو کسی سکون والے اسٹیشن پر کھڑی کرکے باقی ماندہ نیند پوری کر سکیں۔ 

بہرکیف بات ہو رہی تھی لمحاتی بیداری کی اور خوابِ غفلت کی ہمیشگی کی۔ ہمارے ہاں بیداری کی تحریکیں مختلف ادوار میں مختلف انداز میں اُٹھتی رہی ہیں۔ ہر مصلح نے اپنے تئیں قوم کو جگانے کی کوشش کی اور کچھ بے چارے کچی نیند کے مارے اُن کی چکنی چپڑی باتوں میں آ بھی گئے جو آگے چل کر خود بھی مصلح کہلائے۔ باقی قوم ہنوز خوابِ خر میں مبتلا رہی اور داعیانِ بیداری کی جانب گوش ِ ناشنوائی کو ڈھال بنائے رکھا۔ 

کسی ایسے موڑ پر جب قوم کو بیدار کرنے کے دشوار گزار کام میں مسلسل ناکامی سے مصلحین عاجز آئے ہوئے تھے ، اُن کی مڈبھیڑ سیانوں سے ہو گئی جیسا کہ سیانے ہر موقع پر کچھ نہ کچھ کہتے ہیں اُنہوں نے اس موقع کو بھی خالی نہیں جانے دیا اور مصلحین کو سمجھایا کہ جب بھی کوئی عظیم کام درپیش ہو تو اُسے ایک دم سے انجام دے دینا ممکن نہیں ہوتا ۔ سو بڑے کام کو ہمیشہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ لیں، درجہ بہ درجہ کام آسانی سے نمٹ جائے گا۔ 

کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے مصلحین نے اس کارِ عظیم کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور پھر سے اپنے محاذ پر جُت گئے ۔ اب اُنہوں نے پوری قوم کو ایک ساتھ جگانے کے بجائے اُنہیں ٹکڑوں میں بانٹ کر جگانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تاریخ میں مختلف قسم کے بیداری کے نعرے ملتے ہیں جن کی ٹارگیٹ آڈینس الگ الگ تھی۔ 

اب کبھی وہ جا گ مہاجر جاگ کا نعرہ لگاتے تو کبھی جاگ پنجابی جاگ ۔ باقی زبانوں میں بھی یقیناً لوگوں کو جگانے کا کام کیا جاتا رہا ہو گا تاہم زبان سے ناآشنائی کے باعث ہم قیاس آرائی سے احتراز برتتے ہیں۔ پھر جب لسانی بنیادوں پر لوگ اُن کی نہ سنتے تو مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر جاگ ۔۔۔۔۔ جاگ کا نعرہ لگاتے اور بیچ میں اپنے مخاطب کو اٹکا دیتے۔ 

مجھے یاد ہے بچپن میں کچھ ایسے پمفلٹ دیکھنے کو ملتے کہ جن میں ماؤں بہنوں سے خطاب کیا جاتا اور ان پمفلٹس سے پتہ چلتا کہ فلانی قوم آپ کی قوم کو تباہ برباد کرنے کے درپے ہے اور آپ اب بھی نہ جاگے تو تاریخ میں آپ کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ یقیناً فلانی قوم کو بھی اسی قسم کے دھمکی آمیز پیغام ملتے رہتے ہوں گے۔ یہاں بھی وہ لوگ جو پہلے سے بے خوابی کا شکار ہوا کرتے تھے ان مصلحین کے ساتھ مل جاتے اور خوفِ فساد خلق سے بیگانہ ہو کر نہ جانے کیا کیا کہتے پھرتے۔ 

شعرائے کرام کسی بھی تحریک کی روحِ رواں ہو ا کرتے ہیں سو اُنہوں نے گاہے بہ گاہے اُٹھنے والی بیداری کی لہروں میں بھی اپنی شاعری سے مزید ارتعاش پیدا کیا جن سے بیش تر سونے والوں کے کان جھنّا کر رہ گئے لیکن تب بھی آفرین ہے، شعراء کو نہیں! بلکہ سونے والوں کو کہ اُنہوں نے شعراء کی چارہ سازی کا کوئی بندوبست نہ کیا یعنی اُنہیں گھاس نہیں ڈھالی۔ اس نعمت بہ رنگِ زحمت کے باعث شعراء کرام کا "بے چارہ" طبقہ گھاس کھائے جانے کے الزام سے بچ گیا۔ 

یوں تو اگر اردو شاعری سے بیداری کے لئے لکھی جانے والی شاعری کی تلاش شروع کی جائے تو ڈھیر لگ جائے لیکن یہاں ہم فقط دو چار مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ 

مثلاً یہ شعر دیکھیے:

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا​

اُٹھو اور دوڑو! ارے بھئی اُٹھنے اور دوڑنے کے بیچ میں اگر ناشتہ تیار ہے کی صدا بھی لگا دی جاتی تو شاید کچھ پوستی مارے ناشتہ کرنے کے لئے ہی اُٹھ جاتے ۔ لیکن شاعر نے زورِ بیان پر دھیان دیا اور سونے والوں کی فطرت سے غفلت برتی ۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ 

یہ شعر بھی دیکھیے:

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!​

یہاں بھی مصلحین نے سیانوں والی تکنیک آزمائی یعنی پورے بندے کو جگانے کے بجائے صرف آنکھ پر قسمت آزمائی کی۔ سونے والوں نے یہ تو سنا کہ کوئی اُنہیں کچھ کہہ رہا ہے تاہم نیند میں یہ نہ سمجھ پائے کہ مژگاں کھولنے سے مراد پلکیں اُٹھانا ہے ورنہ وہ اتنے بھی سست نہ تھے کہ پلکیں بھی نہ اُٹھا پاتے۔ 

لیکن جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی اور جس طرح سارے پوستی ایک جیسے نہیں ہوتے اُسی طرح سب شاعر بھی ایک سے نہیں ہوتے اور کچھ ہماری طرح کے بھی ہوتے ہیں جو خود غافلین میں شمار ہوتے ہیں اور کیا خوب شمار ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کسی شاعر کا شعر دیکھیے:

ڈالی ہے اس خوش فہمی نے مجھ کو سونے کی عادت 
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
جب اس مسئلےپر ہم نے غور کیا تو ہمیں ایک ہی بات سمجھ آئی اور وہ یہ کہ اگر بچپن سے ہی لوگوں میں بیداری کی عادت ڈالی جائے تو وہ بعد میں بھی سوتے رہنے کی کیفیت سے نکل کر سونے جاگنے کی کیفیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بچوں میں بیداری کی لہریں بڑوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ قوی ہوتی ہیں۔ تاہم بچوں کی یہ بیداری کی لہریں اکثر بڑوں کی نیند کے اوقات سے متصادم ہوا کرتی ہیں اور بڑے جو مصلحین کو بھی کسی گنتی میں نہیں لاتے بچوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ نتیجتاً ہمارے ہاں مائیں اکثر بچوں کو مار مار کر سُلاتی نظر آتی ہیں کہ "کمبخت سوجا۔ کیا تو نے جینا حرام کیا ہوا ہے میرا"۔ اور سوتے بچوں کو مار مار کر اُٹھایا جاتا ہےکہ"کمبخت اس وقت سو رہا ہے اور جب سونے کا وقت ہو گا تو اُٹھ بیٹھے گا"۔ اس شدید تشدد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں میں اُٹھنے والی بیداری کی لہریں پسپا ہو جاتی ہیں اور وہ ماں باپ کے ساتھ ساتھ سونے اُٹھنے لگتے ہیں اور کبھی خدانخواستہ بچوں کی آنکھ کھل جائے اور ماں باپ سو رہے ہوں تو بیچارے سہم کر پھر سے سو جاتے ہیں۔ 

نونہالوں میں بیداری کی لہر کا گر کسی نے اہتمام کیا تو وہ ہمارے عزیز ترین مصلح جناب حکیم محمد سعید صاحب تھے کہ جو بچوں کا رسالہ "نونہال" نکالا کرتے تھے اور اُس کا پہلا مضمون ہی "جاگو جگاؤ" ہوا کرتا تھا۔ اس مضمون میں بیدار مغز لوگوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں اور جو بچوں کو عملی زندگی میں غافلین میں شامل ہونے سے روکتی تھیں۔ 

اس جاگو جگاؤ تحریک کا توڑ لوگوں نے یہ نکالا کہ نونہالوں میں بچوں کے رسالے پڑھنے کا ماحول ہی ختم کر دیا ۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ جو بچے بچوں کے رسائل پڑھے بغیر پروان چڑھے وہ بڑے ہو کر بھی یہ طفلانہ رسائل نہیں پڑھ سکتے۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ 



آج کے دور میں بیداری کی سب سے بڑی تحریک کا عَلم موبائل فون کے الارمز نے اُٹھایا ہوا ہے اور اُن کے مقابل وہ ناقابلِ شکست ہاتھ ہیں کہ جن کا عزمِ مصمّم ہر بار الارم بجنے پر اسنوز کی ناب دبانے کا فریضہ جی جان سے انجام دیتے ہیں اور کبھی کبھی اسنوز پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ الارم ہی ڈِس مِس کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر اسکول یا دفتر سے چھٹی ہو جائے تو خود کو بیمار سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر سے سفارش کرتے ہیں کہ وہ اُن کے لئے آرام کی سفارش کرے ۔ اگر ڈاکٹر ایسا ہی کرے تو ٹھیک ورنہ وہ ڈاکٹر کے لئے آرام تجویز کرتے ہیں اور دوسرے ڈاکٹر کے ہو جاتے ہیں۔ آخر ڈاکٹر کو اتنا بیدار مغز تو ہونا ہی چاہیے کہ سمجھ سکے کہ مریض کو کس طرح آرام آئے گا۔ 

٭٭٭٭٭​

موسمی شاعری کا دسمبری میلہ

شاعر نے تو بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا

آخری چند دن دسمبر کے 
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں

لیکن ہم سادہ لوح تھے سمجھ نہیں پائے اور باقی نظم پڑھنے بیٹھ گئے۔  شاعر کے لئے دسمبر کیوں بھاری ہو ا کرتا تھا وہ تو شاید شاعر ہی جانتا ہوگا ، غالباً محبوب کا فراق یا  وصال اُس کے لئے سوہانِ روح بن گیا ہو۔ تاہم اردو کمیونٹی کے لئے دسمبر ، موسمی شاعری کا ایسا تکلیف دہ موسم بن کر رہ گیا ہے کہ اب اس دکھ کا مداوا ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ دیکھا گیا ہے کہ مجذوب صفت شعراء دسمبر میں شاعری کے سالانہ عرس پر جوق در جوق جمع ہوتے ہیں اور پھر دسمبر کے نام پر وہ دھمال ڈالتے ہیں کہ عرش تو کیا فرش بھی ہلا دیتے ہیں۔  اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ بے یقین بے مراد رہتا ہے اور یقین والوں کو ہی ملتا ہے جو ملتا ہے تاہم اس نامراد دسمبری اور موسمی شاعری سے کسبِ فیض کرنے سے بہتر ہے کہ انسان نامراد ہی رہے بلکہ نامراد ہی مر جائے تو بھی کوئی ایسا حرج نہیں ہے۔ 

اس دسمبری شاعری کو دیکھ کر اور پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ماہِ دسمبر کسی سرکاری دفتر میں رکھا شکایت کا صندوق ہے۔ جسے لوگوں نے  اپنے اپنے رونے رو کر کھچا کھچ بھر دیا  ہے اور کوئی ان فریادوں کا سننے والا روئے ارض پر موجود نہیں ہے۔ 

دسمبر کے نام پر تخلیق کیا جانے والا اولین کلام چونکہ اصل تھا اور اس میں موسمی بہاؤ اور نقالی کے اثرات نہیں تھے سو وہ واقعتاً قابلِ اعتناء تھا۔ ایسے ہی کسی اصلی شاعر نے کہا ہوگا کہ:

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھُل گیا 
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

تاہم زیادہ مسئلہ جب پیدا ہوا کہ بلبلوں کے ساتھ ساتھ باقی پرندے بھی غزلخواں ہو گئے یعنی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔ اس  دسمبری بھیڑ چال شاعری نے دسمبر ، شاعری اور خوش ذوق قارئین سے یکساں انتقام لیا  اور اکثر کو ایسا متنفر کر دیا کہ لوگ دسمبر کا نام دیکھ کر ہی کلام کی بساط لپیٹ دیا کرتے ہیں۔ 

ہم نے مانا کہ " فریاد کی کوئی لے نہیں ہے" لیکن شاعری شتر بے مہار اچھی نہیں لگتی بلکہ شتر خود بھی بے مہار اچھا نہیں لگتا۔ 

اقبال نے کہا تھا کہ :

رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں

اگر خدانخواستہ اقبال آج حیات ہوتے تو اُنہیں ستاروں کی خاموشی سنائی ہی نہیں دیتی اور وہ دسمبری شاعری پڑھ پڑھ کر ہی اپنے آنسو خشک کر بیٹھتے۔ 

گو کہ ہم نے بھی ایک بار دسمبری شاعری اپنے بلاگ پر جمع کی تھی تاہم یہ اُن دنوں کی بات تھی کہ آتش ابھی نوجوان ہی تھا اور ابھی دسمبری شاعری کا مجموعہ خیال لخت لخت نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس کے ورق لالے، گُل اور نرگس کو اُٹھانے کی مہلت ملی تھی۔

آخری بات جسے آپ وضاحتی بیان سمجھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم شاعری اور شعر میں اپنے جذبات اور احساسات کے بیان کے خلاف نہیں ہیں (ہم ہو بھی کیسے سکتے ہیں) لیکن جب آپ اپنے جذبات اور احساسات بیان کرتے ہیں تو انداز بھی اپنا ہونا چاہیے۔ تخلیق خونِ جگر مانگتی ہے سو نایاب ہوتی ہے ۔ سو اصل تخلیق کا مقابلہ کسی بھی طرح نقالی سے نہیں کیا جا سکتا۔

****

mosami shairi ka decemberi mela

غزل : وہ تشنگی کا دشت جب سراب رکھ کے سو گیا

غزل 

وہ تشنگی کا دشت جب سراب رکھ کے سو گیا
تو میں بھی اپنی پیاس پر سحاب رکھ کے سو گیا

میں تشنہ تھا سو خواب میں سراب دیکھتا رہا
جو تھک گیا تو سر تلے حباب رکھ کے سو گیا

فسانہ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے اُلجھ گیا
عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا

جو میرے گرد و پیش میں عجیب وحشتیں رہیں
میں اپنی چشمِ خواب میں عذاب رکھ کے سو گیا

بھٹک رہا ہوں کُو بہ کُو ، نہ رُک سکوں ،نہ بڑھ سکوں
وہ میرے دشت میں کئ سراب رکھ کے سو گیا

رہا حسابِ دوستاں، سو وہ تو دل میں تھا نہاں
معاف کی جفائیں سب! حساب رکھ کے سو گیا

پھر ایک دن سُخن پری، رُکی! نہ اپنے گھر گئی
تھکا ہوا میں درمیاں حجاب رکھ کے سو گیا

سوال ہی سوال تھے لبوں پہ زندگی ترے
دمِ فنا لبوں پہ میں جواب رکھ کے سو گیا

اُسے کبھی نہ کہہ سکا میں احمد ؔ اپنا حالِ دل
سو آج پھر کتاب میں گُلاب رکھ کے سو گیا

محمد احمدؔ​

غزل : اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا

غزل 

اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا
اِک حشر یہاں بپا رہا تھا

دستار ، کہ پاؤں میں پڑی تھی
سردار کسی پہ ہنس رہا تھا

وہ شام گزر گئی تھی آ کے
رنجور اُداس میں کھڑا تھا

دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا

صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا

اِک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا ، بِھڑا ہوا تھا

شب خون میں روشنی بہت تھی
تھا کون جو دیکھتا رہا تھا

جزدان میں آیتیں چُھپی تھیں
گلدان میں پھول کھل رہا تھا

اِک شخص کہ تھا وفا کا پیکر
وہ شخص بھی مائلِ جفاتھا

دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا

کچھ پھول کھلے ہوئے تھے گھر میں
کچھ یاد سے دل مہک رہاتھا

کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

اُس شام تھا دل بہت اکیلا
میں ہنستے ہنستے رو پڑا تھا

تھی بات بہت ذرا سی احمدؔ
اس دل کو نہ جانے کیا ہوا تھا

محمد احمدؔ​

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

غزل 

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں جو تیری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب 
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

محمد احمدؔ​

غزل۔ اشک کیا ڈھلکا ترے رُخسار سے

غزل


اس طرح بیٹھے ہو کیوں بیزار سے
بھر گیا دل راحتِ دیدار سے؟

اشک کیا ڈھلکا ترے رُخسار سے
گِر پڑا ہوں جیسے میں کُہسار سے

در کُھلا تو میری ہی جانب کُھلا
سر پٹختا رہ گیا دیوار سے

ایک دن خاموش ہو کر دیکھیے
لُطف گر اُٹھنے لگے تکرار سے

دیکھ لو یہ زرد آنکھیں، خشک ہونٹ
پوچھتے ہو حال کیا بیمار سے

قدر کیجے فیض جس جس سے ملے
سایہ ٴ دیوار ہے، دیوار سے

کل یہاں ویرانیاں نہ ہوں مقیم
ڈر رہا ہوں گرمیِ بازار سے

جھوٹ چلتا ہے مگر اِک آدھ بار
اے قصیدہ خواں حذر! تکرار سے

بِک رہی ہے زندگی کے مول ، موت
جائیے! لے آئیے بازار سے

مانگتے ہیں ووٹ، اُس پر طنطنہ
پیچ و خم نکلے نہیں دستار سے

بند کر ٹی وی کی خبریں، بے خبر!
چل کوئی کالم سنا اخبار سے

دوستی کی محفلیں قائم رہیں
یہ دعا ہے اپنی پالن ہار سے

تجھ میں احمدؔ عیب ہیں لاکھوں مگر
واسطہ ہے تیرا کِس ستّار سے

محمد احمدؔ​

جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں

غزل


جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں
جب دل کا ہم نشیں ملتا نہیں کہیں

یوں اُس کی یاد ہے دل میں بسی ہوئی
جیسے خزانہ ہو زیرِ زمیں کہیں

ہم نے تمھارا غم دل میں چھپایا ہے
دیکھا بھی ہے کبھی ایسا امیں کہیں

میری دراز میں، ہے اُس کا خط دھرا
اٹکا ہوا نہ ہو، دل بھی وہیں کہیں

ہے اُس کا خط تو بس سیدھا سپاٹ سا
ہاں دل لگی بھی ہے اس میں کہیں کہیں

جتنا وہ دل رُبا ، اُتنا ہی بے وفا
دل کو ملا ہی کیوں ایسا حسیں کہیں

احمدؔ یہ دل مِرا ،کیوں ہے بجھا بجھا
دل سے خفا نہ ہو، دل کا مکیں کہیں

محمد احمدؔ​

شعراء کا ڈوپ ٹیسٹ

شعراء کا ڈوپ ٹیسٹ
از محمد احمد
کھیلوں کی دنیا سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ بہت سے کھلاڑی /ایتھلیٹس کارکردگی کو بڑھانے کے لئے دوائیں استعمال کرتے ہیں تاہم ان دواؤں کا استعمال کھیل کی روح کے منافی سمجھا جاتا ہے ۔ اور اس عمل کی روک تھام کے لئے کھلاڑیوں کی جانچ بذریعہ ڈوپ ٹیسٹ کی جاتی ہے۔ ٹیسٹ میں مثبت رپورٹ آنے پر کھلاڑیوں کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی جاتی ہے اور اُن کی کارکردگی کو انصاف کے اصولوں کے منافی بھی سمجھا جاتا ہے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ بعینہ یہی بات ایسے شعراء پر بھی صادق آتی ہے کہ جو اپنی کاکردگی بڑھانے کے لئے مے نوشی کا سہارا لیتے ہیں اور پی پلا کر ایسی ایسی شاعری کرتے ہیں کہ پڑھنے سننے والے دنگ رہ جائیں۔ 

اگر آپ کا اردو شاعری سے تھوڑا بہت بھی علاقہ رہا ہے تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ہمارے شعراء ہر دوسری غزل اور چوتھے شعر میں شراب کا ذکر کرتے ہیں تاہم یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کبھی زیادہ موڈ ہو تو یہ لوگ شراب کو ردیف میں شامل کر لیتے ہیں اور ہر شعر میں جام کے جام لنڈھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ 

جہاں تک شاعری میں شراب کے ذکر کی بات ہے تو ہمیں اُس پر کوئی اعتراض نہیں ہے چاہے وہ استعاراتی معنوں میں ہو یا حقیقی معنوں میں۔ ہم تو بات کر رہے ہیں اُن شعراء کی جو شراب پی کر شاعری کرتے ہیں یا شراب پی جانے کی وجہ سے شاعری کرنے لگتے ہیں ۔ 

ہمارے ہاں یہ تاثر بڑا عام ہے کہ جو شعراء دخترِ رز سے آشنائی رکھتے ہیں اُن کی شاعری میں ایک الگ ہی جذب اور گہرائی ملتی ہے۔ اُن کے مضامین طاق ہوا کرتے ہیں اور تخیّل اوج پر ہوتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح بھی ہے کہ ہمارے ہاں بے شمار نامی گرامی شعراء ایسے ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں کہ جو مے نوشی سے نسبت رکھتے ہیں اور بہت اچھی شاعری اُن کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔ نام ہم اس لئے نہیں لے رہے کہ نام بہت سارے ہیں اور نام لکھنے سے یہ مضمون مقالہ معلوم ہونے لگے گا۔ مزید براں بہت سے شعراء اس بات پر معترض ہوں گے کہ مے نوشوں میں اُن کا نام کیوں لکھا اور بہت سے اس بات پر کہ مے نوشوں میں اُن کا نام کیوں نہ لکھا۔ سو نام رہنے دیتے ہیں۔ ویسے بارہ پندرہ نام تو آپ کے ذہن میں بھی آ ہی گئے ہوں گے۔
اگر آپ کا اردو شاعری سے تھوڑا بہت بھی علاقہ رہا ہے تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ہمارے شعراء ہر دوسری غزل اور چوتھے شعر میں شراب کا ذکر کرتے ہیں تاہم یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کبھی زیادہ موڈ ہو تو یہ لوگ شراب کو ردیف میں شامل کر لیتے ہیں اور ہر شعر میں جام کے جام لنڈھانے سے دریغ نہیں کرتے۔

اس تمام پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نشہ اور خمار انسان کے ذہن کو فکرِ سخن کے لئے یکسوئی اور ایسا شاعرانہ نظم فراہم کرتا ہے کہ انسان دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور یوں شاعری کے لئے ایک ایسی فضا ہموار ہو جاتی ہے کہ ہوش وحواس میں رہتے ہوئے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ 

بقول غالب :
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو 
اک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے​

گو کہ غالب نے اپنے تئیں اپنی صفائی پیش کی ہے کہ ہمیں شراب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن اسی شعر سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ غالب کو شراب کی ضرورت اس لئے رہی کہ وہ ایک مستقل بے خودی کی کیفیت خود پر طاری رکھنا چاہتے تھے ۔ اور اس کیفیت کے زیرِ اثر فکرِ سخن کے علاوہ بھلا کیا کام ہو سکتا تھا۔ بے خودی میں قدم اُٹھانے کے متمنی تو غالب بھی نہیں ہوں گے۔ 

بعد میں غالب نے اسی شعر کو اُلٹا کرکے بھی پیش کیا۔ 

بے خود ی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے​

حالانکہ پردہ داری کی چنداں ضرورت نہیں تھی اور لوگ جانتے تھے کہ غالب پر کس شے کے باعث بے خودی طاری رہا کرتی تھی۔ 

سو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ جو شاعر اپنی کارکردگی بڑھانے کے لئے دوا دارو کا استعمال کرتے ہیں اُن کا ڈوپ ٹیسٹ ہونا چاہیے اور ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر ان کی شاعری کو شاعری کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اُن پر چھ آٹھ ماہ کی پابندی لگا دینا چاہیے۔ تاحیات پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے لیکن ہم ایسی سخت دلی کی سفارش نہیں کرتے۔ 

اس طرح اُن لوگوں کو تشفی ہوگی جو بن پیے لہراتے ہیں یعنی شاعری کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اُن لوگوں کو سراہنا چاہتے ہیں جو بن پیے شاعری کیا کرتے ہیں کہ یہ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ 

آپ فکرِ سخن میں ہیں کہ بیگم کہتی ہے دہی لا دیں۔ آپ دہی لانے کے لئے اُٹھنا نہیں چاہتے اور چاہتے ہیں کہ فکرِ سخن کے علاوہ کوئی اور فکر لاحق نہ ہو لیکن بیگم آپ کے دماغ کی دہی بناتی رہتی ہے اور آپ دماغ کی لسی بننے کے خوف سے چار و ناچار دہی لینے کے لیے چلے جاتے ہیں اور غزل اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ 

تاہم اگر آپ پیے ہوئے بیٹھے ہیں تو دہی لانے کی فرمائش ہو سکتا ہے کہ آپ کے کان تک ہی نہ پہنچے ۔ اور اگر پہنچ بھی جائے تو آپ کو اوجِ ثریا سے اُتار کر دہی کی دوکان تک لے جانے والی کرین ابھی ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ سو چار و ناچار بیگم آپ پر تین حرف بھیجے گی اور پڑوسی کے بچے کو دہی لینے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہوش میں آنے تک دو چار غزلیں تیار ہوں گی۔ اور بیگم کی فرمائش پر دہی لانے والا شاعر دوسرے دن مشاعرے میں آپ کی غزلوں پر سر دھن رہا ہوگا اور کھٹی ڈکاریں لے رہا ہوگا۔ 

اس طرح کے بہت سے منظر ہم آپ کو دکھا سکتے ہیں کہ کس طرح صہبا اور صراحی کے ہم نشین، دہی اور کونڈے کے خاک نشین سے آگے نکل جاتے ہیں تاہم تھوڑے کہے کو بہت سمجھتے ہوئے یہیں پر بس کرتے ہیں اور مزید مناظر آپ کی تخیلانہ صلاحیتوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ 

ایک بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اچھی اور معیاری شاعری کے لئے جس ذہنی بالیدگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب چیدہ چیدہ لوگوں کے پاس ہی رہ گئی ہے۔ اب یہ چیدہ چیدہ لوگ اگر مے نوشی کر لیں تو ساری سنجیدگی اور بردباری یک بہ یک روانہ ہو جاتی ہے اور یہ لوگ وہ وہ حرکتیں کرنے لگتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔! 

اس کے برخلاف غیر سنجیدہ حضرات پر مے نوشی کا اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ بقول حضرتِ فراق:

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراق
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہوگئے 
اب ایسی سنجیدگی کے ساتھ جب سنجیدہ شاعری کی جاتی ہے تو وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے اور اس ناہنجار شے کے باعث غیر سنجیدہ لوگ معتبر ٹھہرتے ہیں اور معتبر لوگ غیر سنجیدہ۔ 

اس سب قضیے کے باوجود شاعر اپنے شراب پینے کو جائز قرار دیتا ہے اور چِلا چِلا کر کہتا ہے:

ہنگامہ ہے کیوں برپا ، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے​

تو ہم شاعرِ موصوف کو کہتے ہیں کہ بھائی آپ نے ڈاکہ تو واقعی نہیں ڈالا لیکن اُس بے چارے شاعر کا کیا قصور جس نے کٹھن حالات میں دو شعر کہے اور باقی غزل دہی اور دلیے کی نظر ہو گئی۔ 

سو ہماری پر زور اپیل ہے کہ شعراء کے لئے بھی اینٹی ڈوپنگ ادارہ قائم کیا جائے اور ایسے شعراء کے ٹیسٹ سب سے پہلے کیے جائیں جن کے شاعری شراب اور بے خودی کے گرد گھومتی ہے اور وہ خود صراحی اور پیمانے کے گرد۔ 

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری اس جسارت پر بہت سے شائقینِ مے ناب ہمیں کھری کھری سنائیں گے اور بہت سے تلملا کر یہ تک کہہ دیں گے :

؎ ہائے کم بخت تو پی ہی نہیں

تاہم ہم اس دیرینہ طعنے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا وضاحتی بیان جار ی کریں گے کہ جناب ہمیں آپ کی مے نوشی پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ہمیں تو رخشِ مے نوشی پر سوار ہو کر سخنوری کرنے پر اعتراض ہے۔ جناب آپ دل کھول کر پیئں اور جب دل چاہے پیئں لیکن کبھی بغیر پیے بھی دو چار غزلیں لکھنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ غزل کس طرح ہوتی ہے۔ 

نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟
اگر آپ اس طرح کا کوئی شعر یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو رہنے دیجے ہم نے یاد دلا دیا ہے اور بھی بہت سے ہیں جو یاد کرنے پر سلسلہ وار یاد آتے چلے جائیں گے۔ لیکن ہم پھر یہی کہیں گے کہ جناب ہماری اس چھوٹی سی گزارش کو دعوتِ مبارزت نہ سمجھیے بلکہ ہوش کے ناخن لیجے اور اُن سے اپنے نادیدہ زخم کرید کر دیدہ و دانستہ باقائمی ہوش و حواش فکرِ سخن کیجے تاکہ آپ بھی کہہ سکیں کہ جناب یہ ہوتی ہے اسپورٹس میں اسپرٹ۔ :)



*****