بھائی کی محبت کے عکاس دو نوحے ۔ فیض احمد فیض اور مصطفیٰ زیدی کے قلم سے


کہنے کو تو یہ دنیا ایک سرائے کی طرح ہی ہے کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ساتھ زندگی بسر کرنے والے  اکثر دلوں میں گھر کر جاتے ہیں  اور اُن کی عارضی یا دائمی جدائی دلوں میں گھاؤ ڈال جاتی ہے۔ پھر اگر ایسے لوگ آپ کے قریبی ہوں۔ آپ کے اہلِ خانہ میں سے ہوں تو یہ زخم اور بھی گہرا ہوتا ہے کہ اپنوں کی جُدائی بھی اپنوں کی محبت کی طرح بے مثال ہوتی ہے۔ 

رفتگاں کی یاد اور دکھ اردو شاعری کا ایک خاص حزنیہ موضوع ہے اور شعراء نے اس  کا حق بھی خوب ادا کیا ہے۔ ذیل میں دو نظمیں پیش ہیں جو دو  بے مثال شعراء نے اپنے بھائی کی وفات پر لکھی۔ پہلی نظم تو فیض کی مشہورِ زمانہ "نوحہ"  ہے جبکہ دوسری نظم مصطفیٰ زیدی کی "اپنے مرحوم بھائی مجتبیٰ زیدی کے نام" ہے۔  دونوں ہی نظمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور محبت اور  غم کی وہ کیفیات رکھتی ہیں کہ جنہیں دل سے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔  

نوحہ 

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
کیا کروں بھائی ، یہ اعزاز میں کیونکر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیضوں کا حساب
آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب
آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

فیض احمد فیض

۔۔۔۔۔۔

اپنے مرحوم بھائی  مجتبیٰ زیدی کے نام 

تم کہاں رہتے ہو اے ہم سے بچھڑنے والو!
ہم  تمھیں ڈھونڈنے جائیں تو ملو گے کہ نہیں
ماں کی ویران نگاہوں کی طرف دیکھو گے؟
بھائی آواز اگر دے تو سُنو گے کہ نہیں

دشتِ غربت کے بھلے دن سے بھی جی ڈرتا ہے
کہ وہاں کوئی نہ مونس نہ سہارا ہوگا
ہم کہاں جشن میں شامل تھے جو کچھ سُن نہ سکے!
تم نے ان زخموں میں کس کس کو پکارا ہوگا

ہم تو جس وقت بھی، جس دن بھی پریشان ہوئے
تم نے آکر ہمیں محفوظ کیا، راہ دکھائی
اور جب تم پہ بُرا وقت پڑا تب ہم لوگ
جانے کس گھر میں ،کہاں سوئے ہوئے تھے بھائی

ہم تری لاش کو کاندھا بھی نہ دینے آئے
ہم نے غربت میں تجھے زیرِ زمیں چھوڑ دیا
ہم نے اس زیست میں بس ایک نگیں پایا تھا
کسی تربت میں وہی ایک نگیں چھوڑ دیا

(نا مکمل ۔۔۔۔۔     وہ نوحہ جو کبھی مکمل نہیں ہو سکتا)

مصطفیٰ زیدی

رشک بھرے دو سوال

کاسنی رنگ کا 
وہ جو چھوٹا سا پھول اُس کے بالوں میں ہے
کن خیالوں میں ہے؟

اور آویزے جو 
جھلملاتے ہوئے اُس کے کانوں میں ہیں
کن اُڑانوں میں ہیں؟

محمد احمدؔ

محرومِ تماشا​

محرومِ تماشا​

از محمد احمد​


شام ڈھل چکی تھی ۔ چائے کی ہوٹل پر حسبِ معمول رونق میں اضافہ ہو چکا تھا ۔ لوگ مختلف ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھےاور دن بھر کی تھکن کے مارے دکھتے بدن پر ذائقہ اور تراوت کے پھائے رکھ رہے تھے۔ یہ شہر کا ایک متوسط علاقہ تھا اور سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں کےلوگ بھی چائے کے رسیا تھے۔ باہر والے لڑکے ادھر سے اُدھر کسی کو چائے اور کسی کو دلاسہ دیتے نظر آتے اور اپنے تئیں آرڈر اور چائے کی ترسیل میں توازن رکھنے کی کوشش کرتے ۔ 

نیلی گاہے گاہے مختلف میزوں پر جا رہی تھی ۔ اُسے ان میزوں کی ترتیب اور راستوں میں آنے والی تمام رکاوٹیں ازبر ہوگئیں تھیں۔ نیلی کے شانوں پر دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ بڑی مضبوطی سے جمے ہوئے تھے جو اُسے رُکنے اور چلنے کی ہدایات دے رہے تھے ، ہدایات کیا دے رہے تھے یہ ہاتھ کسی کہنہ مشق ڈرائیور کے ہاتھوں کی طرح تھے جو گاڑی کے اسٹیرنگ پر مضبوطی سے جمے گاڑی کو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں موڑنے کا کام کرتے ہیں ۔ نیلی کو روکتے ، بڑھاتے یہ ہاتھ پرویز کے تھے۔ پرویز نیلی سے بڑا تھا ۔ بڑا بھی کیا تھا کہ پرویز اور نیلی کی عمروں میں سال دو سال کا ہی فرق ہوگا سو دونوں بہن بھائی تقریباً ہم عمر ہی نظر آتے تھے۔ 

نیلی دیکھ نہیں سکتی تھیں کہ اُس کی آنکھوں کی پُتلیاں پیدائش کے وقت سے ہی نہ جانے کس انجانے خوف سے گدلائی ہوئی سفید جھلیوں کے پیچھے جا چھپی تھیں۔ پرویز اور نیلی چائے کی ہوٹل پر موجود ہر میز پر جاتے اور اُن کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتے۔ پرویز کا کام نیلی کو میز کرسیوں پر براجمان لوگوں کے احاطہ ء نظر میں لاکر ختم ہوجاتا ۔ لوگ نیلی کی بے نور آنکھوں کو دیکھتے اور دو روپے ، پانچ روپے اور دس روپے نیلی کے ہاتھ پر رکھ دیتے ۔ جو لوگ کچھ نہ بھی دیتے وہ دل ہی دل میں ترس کھا کر رہ جاتے۔ ایک میز سے دوسری میز تک جاتے ہوئے ملنے والے سکے اور نوٹ پرویز کی جیب میں منتقل ہوجاتے۔ 

..............​

باقی سب ملازموں کی طرح الیاس بھی فیکٹری کے مالک ارشاد نواز سے خوش نہیں تھا۔ لیکن فیکٹری مزدوروں کے خوش ہونے نہ ہونے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے اُنہیں پیسے چاہیے تو کام تو کرنا پڑے گا ،جب اور جس طرح بھی ملے۔ تیار شدہ ملبوسات کے اس ادارے میں بے شمار مزدور دن اور رات کی شفٹوں میں کام کرتے لیکن اُن کو اتنا ہی ملتا کہ وہ بامشکل گزارا کر لیں ، وہ جو بھی کماتے راشن کی نظر ہوجاتا۔ کبھی کھانے پینے یا پہنے اوڑھنے میں ہاتھ کی گرہ کھل جاتی تو قرض کی رسی زیبِ گلو ہو جاتی ۔ مزدوری ہر ہفتے کے دن تقسیم ہوتی اور اُس دن مزودر وں کی کیفیت اُس گرسنہ بلی کی سی ہوتی جو ڈھونڈ ڈھانڈ کر کچرے سے ہڈی تو برامد کر لیتی لیکن اُس ہڈی سے غذائیت نچوڑنے کا عمل گلے اور تالوؤں کو اُدھیڑ کر رکھ دیتا۔ گو کہ مزدوری وقت پر ملتی لیکن کسی نہ کسی بہانے مزدوری میں کٹوتی ہو جاتی۔ کبھی کپڑا رنگنے کے عمل میں خرابی ہو جاتی تو اس کا خمیازہ مزدوروں کو بھی بھگتنا پڑتا اور کبھی کوئی برامدی ترسیل خریدار کی طرف سے رد کردی جاتی تو بھی مزدوروں کی دھاڑی سے ہی نقصان پورا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ 
"بھئی اپنی جیب سے تو نقصان پورا کرنے سے رہے، ایسے تو فیکٹری بند ہو جائے گی۔ پھر کہاں مزدوری ملے گی تم سب کو" ارشاد نواز خود کو حق بجانب سمجھتے۔ 
ہاں البتہ جب کبھی اُنہیں نسبتاً زیادہ منافع ہوتا تو اُنہیں کبھی وہ مزدور یاد نہ آتے جو خسارے میں اُن کے شریک ہوتے۔ 

زندگی بڑی عجیب چیز ہے رو دھو کر بھی چلتی رہتی ہے۔ الیاس بھی جیسے تیسے دن کاٹ رہا تھا، چھوٹے سے گھر میں وہ اور اُس کی بیوی تبسم، تنگی ترشی کی دن گزار رہے تھے۔ اُن کی تمام تر خوشی ننھے منے پرویز تک ہی محدود تھی کہ جسے دیکھ کر وہ مسرور ہوجاتے لیکن غربت کے باعث وہ اُس کے لئے بھی کچھ نہیں کر پاتے اور یہ خیال اُن کے مسرور چہرے سے اُجالا نوچ کر پھینک دیتا۔ پھر جب نیلی کی پیدائش ہوئی تو جیسے اُن کی رہی سہی خوشیوں کو بھی نظر لگ گئی۔ الیاس کا دل اُس چراغ کی طرح بجھ گیا جو طاق سے پختہ فرش پر گر کر ٹوٹ گیا ہو۔ تبسم صرف نام کی تبسم رہ گئی اور اُس کے چہرے سے مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئی۔ نیلی پیدائشی طور پر نابینا تھی۔ اُس کا ناک نقشہ بہت خوب تھا لیکن اُس کی آنکھیں ۔ اُس کی آنکھوں کو دیکھ دیکھ کر ماں باپ کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے۔ انہوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اُس کا نام نیلم رکھیں گے لیکن یہ بات اُن کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھی کہ اُن کی نیلی، نیلم کی طرح پیاری ہونے کے ساتھ ساتھ پتھر کی طرح اُن سے بیگانی بھی ہوگی۔ غربت کے آنگن میں پلنے والے بچوں کی قسمت میں پیار کہاں ہوتا ہے پھر بھی نیلم کو پیار سے نیلی کہا جانے لگا۔ شاید یہ نام پیار سے زیادہ بولنے والوں کی آسانی کا مظہر تھا۔ 

..............​

"لگتا ہے تم مجھے بیمار کرکے ہی چھوڑو گے" عاصم نے متذبذب انداز میں ایک کرسی گھسیٹتے ہوئے اسماعیل سے کہا۔ 
"ارے سر! کچھ نہیں ہوتا! کبھی کبھی ہم غریبوں کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کریں"۔ اسماعیل بھی ایک کرسی پر براجمان ہو چکا تھا۔ 
"سینکڑوں لوگ دن بھر میں یہاں سے چائے پیتے ہیں، سب بیمار تھوڑی ہوتے ہیں۔ یہ تو چند ایک نصیبوں جلے ہی آپ ڈاکٹروں کی روزی روٹی کا سبب بن جاتے ہیں" اسماعیل نے مسکراتے ہوئے عاصم پہ طنز کیا۔ 
"ہاں ! وہ تو ٹھیک ہے لیکن دیکھو نا ۔۔۔ ۔! یہ لوگ صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ایسے میں ڈر تو لگتا ہے نا!" عاصم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ 

عاصم اُسی ہسپتال میں سینیر ڈاکٹر تھا جس میں اسماعیل بطور میل نرس کام کیا کرتا تھا۔ اسپتال کے عملے سے عاصم کا سلوک دوستانہ تھا ۔ آج اتفاق سے وہ اسماعیل کو گھر تک چھوڑنے آ گیا تو اسماعیل اُسے ضد کرکے مشہورِ زمانہ کوئٹہ ہوٹل پر چائے پلانے لے آیا۔ 
عاصم بغور چائے بنانے والے اور برتن اُٹھانے رکھنے والے لڑکوں کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ لوگ اپنے طور پر صفائی کا خیال بھی رکھ رہے تھے لیکن عاصم کے خیال میں یہ نا کافی تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ تھوڑی سی کوشش کرکے ممکنات کی سرحدوں کو توسیع دی جا سکتی ہے۔ 

..............​

غربت کے دن بھی انسان جیسے تیسے کاٹ ہی لیتا ہے لیکن کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جو اُسے اندر سے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ نیلی کا دُکھ الیاس کے لئے ایسا ہی تھا۔ وہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا کبھی خدا سے بھی شکوہ کرتا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا۔ کیوں اُس کی چاند سی پیاری بیٹی کی ساتھ ہی ایسا ہوا کہ دنیا اُسے دیکھ کر ترس کھاتی اور وہ دنیا کو دیکھ بھی نہ پاتی۔ اُس نے اپنے طور پر نیلی کا علاج کرانے کی بھی کوشش کی لیکن نہ تو اس پسماندہ علاقے میں علاج کی اچھی سہولتیں تھیں اور نہ ہی اُس کی جیب اجازت دیتی کہ وہ آگے بڑھ کر کچھ کر سکے۔ پھر زیادہ تر ڈاکٹر اُس کی غربت کو دیکھتے ہوئے کوئی مہنگی اُمید اُس کی جھولی میں ڈالنے سے کتراتے اور نتیجتاً اُس کی مایوسی دو چند ہوجاتی۔ سوائے کُڑھنے کے اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ 
ہر وقت کی یہ تکلیف الیاس کے لئے دن بدن سوہانِ روح ہوتی جا رہی تھی۔ پھر فیکٹری کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اُسے نشے کی عادت نے آ لیا۔ وہ روزانہ رات نشہ کرکے خود کو ادھر اُدھر کی سوچوں سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا۔ نشے سے جُز وقتی سکون تو اُسے مل گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں پھنس گیا ہے۔ 
پھر ایک روز جب وہ نشے کی حالت میں گھر جا رہا تھا تو ایک انجانی گاڑی نے اُس کی سب مشکلیں آسان کردیں۔ 

جو گھرانہ الیاس کے دم قدم سے جیسے تیسے چل رہا تھا ، اُ س کے بعد تو جیسے وہاں برے وقت نے ڈیرے ہی ڈال لئے۔ مرنے والے کا کفن دفن تو کسی نہ کسی طرح ہو ہی جاتا ہے لیکن زندگی کہاں پیچھا چھوڑتی ہے ، زندہ لوگوں کو تو بہرکیف جینے کا تاوان دینا ہی پڑتا ہے۔ تنگی تُرشی فاقوں کی شکل اختیار کرنے لگی تو محلے پڑوس والے بھی کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گئے۔ کہتے ہیں بھوک بڑی سفاک ہوتی ہے۔ اور واقعی بھوک نے اُنہیں اُس مقام تک پہنچا دیا جس کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ شاید الیاس بہت خود غرض تھا کہ قبر میں جا سویا۔ اب اُس کے لختِ جگر راہوں کی دھول ہوتے رہیں اُسے ہرگزپرواہ نہیں تھی۔ 

..............​

نیلی اور پرویز آدھے ایک منٹ ہر میز پر رُکتے اور اگر کوئی اُنہیں کچھ دینے پر آمادہ نہ ہوتا تو وہ آگے چل دیتے۔ کبھی کبھی کچھ لوگ متوجہ ہونے یا جوابی ردِ عمل ظاہر کرنے میں زیادہ دیر لگاتے تو کچھ ثانیے اور رُک جاتے۔ ابھی مایوسی کے مہمیز کرنے پر وہ ایک میز سے مُڑے ہی تھے کہ کسی کی آواز سنائی دی۔ 
"بات سنو ! ادھر آؤ ذرا۔۔۔ ۔! " یہ عاصم کی آواز تھی۔ 

..............​

ڈاکٹر عاصم اُس کی زندگی میں فرشتہ بن کر آئے تھے۔ شروع شروع میں تو اُسے یقین ہی نہیں آیا کہ چائے کی ہوٹل پر بیٹھا کوئی شخص اُسے بھیک دینے کے بجائے ایک ایسی بات کہہ رہا ہے جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اُس نے تو اندھیروں کو ہی اپنا مقدر سمجھ لیا تھا لیکن جب اُسے یقین آیا کہ اُس کی آنکھیں بھی دنیا دیکھ سکیں گی اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ عاصم ایک تجربہ کار ڈاکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ اُس کی رسائی ایک ایسے ادارے تک بھی تھی جو راہِ خدا مستحق لوگوں کی آنکھوں کا علاج کرتاتھا۔ عاصم کی تجربہ کار آنکھیں پہلی نظر میں ہی بھانپ گئیں تھیں کہ نیلی کی مشکل کا حل ناممکن نہیں ہے۔ 

خوشی اور اُمید روز و شب کے حساب کو گھٹا دیتے ہیں۔ پتہ بھی نہ چلا کہ کب کاغذی کاروائیاں پوری ہوئیں اور کب وہ دن آ پہنچا کہ نیلی دن اور رات میں تمیز کرنے لگی۔ اب نیلی بے حد خوش تھی۔ وہ ایک ایک چیز کو دیکھتی اور حیران ہوتی۔ وہ اپنے تخیل کی دنیا کی ساری تصویریں حقیقی دنیا سے ملاتی اور مسکراتی ۔ اُس کا تخیل کمزور نہیں تھا لیکن مکمل تصویر کاری کے لئے روشنی کتنی ضروری ہے اُسے اب اس بات کا احساس ہورہا تھا۔ 

....................​

پھر آہستہ آہستہ جب روشنی کی چکاچوند کچھ کم ہوئی اور زندگی معمولات کی طرف لوٹنے لگی تو اُس پر زندگی کے خدو خال آشکار ہونے لگے۔ زندگی کی رنگا رنگی رفتہ رفتہ عمومیت کی دھند میں اپنی جاذبیت کھو رہی تھی۔ نیلی کو اکثر زندگی کی بدصورتی کا احساس ہونے لگا۔ خیراتی ادارے "نورِ اُمید" سے آپریشن کے بعد جو رقم نیلی کے گھرانے کو دی گئی تھی وہ بھی اب ختم ہو رہی تھی، اُسے اور پرویز کو لامحالہ اپنے معمول پر لوٹنا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ 

..............​

دوکانیں وہی تھیں، ہوٹلوں اور رہگزاروں پر موجود لوگ بھی کم و بیش وہی تھے لیکن اب پہلے والی بات نہیں رہی تھی۔ ایک دو دن میں ہی نیلی اور پرویز کو یہ احساس ہوگیا کہ گھر لوٹتے ہوئے اب اتنے پیسے اُن کے پاس نہیں ہوتے کہ وہ ٹھیک سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ آج تیسرا دن تھا کہ وہ دونوں بہن بھائی شہر بھر میں مارے مارے پھر رہے تھے لیکن کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں تھا ۔ کوئی نہیں تھا جو پوچھتا کہ دووقت روٹی نہ ملے تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ تھی کہ اب نیلی اُن لوگوں کو دیکھ سکتی تھی جو اُنہیں دیکھ کر منہ بناتے تھے، نفرت اور کراہیت کا اظہار کرتے۔ شاید یہ لوگ پہلے بھی ایسے ہی کرتے ہوں لیکن تب نیلی کو یہ بدصورت مناظر نظر نہیں آتے تھے۔ پھر سب سے بڑی بات اب نیلی کے چہرے پر وہ بے نور آنکھیں نہیں تھیں کہ جنہیں دیکھ کر لوگوں کا دل پسیج جاتا اور نوٹ اور سکے ان کی جیبوں سے نکل کر نیلی کے ہاتھ میں پہنچ جاتے۔ نیلی کے لئے یہ کرب کسی طرح کم نہیں تھا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ اب وہ یہ سب چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ 

نیلی نے ایک بار کہیں سنا تھا کہ خدا کسی سے ناانصافی نہیں کرتا، لیکن تب یہ بات اُس کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ جب اُس کی آنکھوں میں بینائی نہیں تھی تو وہ سوچتی تھی کہ خدا نے سب کو آنکھیں دی تو مجھے کیوں نہیں دیں۔ لیکن اب اُسے احساس ہو رہا تھا کہ خدا نے جنہیں آنکھیں دی ہیں وہ صرف ظاہر کو ہی دیکھتے ہیں ، وہ آنکھوں پر ہی اعتبار کرتے ہیں اُنہیں شاید خدا نے دل نہیں دیے ۔ 

.............​