وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم

نمکین غزل

وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم
بھروسہ کرکے دھوکہ باز پر بے کار می رقصم

سناتا ہوں میں ہر محفل میں اکلوتی غزل اپنی
نہیں ملتی اگر کچھ داد تو سو بار می رقصم

کیا کرتے تھے اوور ٹیک جاو پر حسینوں کو
ہوئی آٹو کی وہ ٹکر کہ آخر کار می رقصم

وہ رکشے پر گزرتی ہے میں پیدل ٹاپ لیتا ہوں
خیالوں میں پکڑ کر دامنِ دلدار می رقصم

نشہ اُترا تو بتلایا مجھے لوگوں نے آ آ کر
بہت اچھلم، بہت کودم برہنہ وار می رقصم

جہاں بجتی ہے شہنائی جلیل اکثر یہ دیکھا ہے
ادھر پتلون می رقصم ادھر شلوار می رقصم 

رشید عبدالسمیع جلیل