لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں

غزل

لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں
گو کہانی سی کہانی بھی نہیں

چاندنی ٹھہری تھی اِس آنگن میں کل
اب کوئی اس کی نشانی بھی نہیں

رابطہ ہے پر زماں سے ماورا
فاصلہ ہے اور مکانی بھی نہیں

حالِ دل کہنا بھی چاہتا ہے یہ دل
اور یہ خفّت اُٹھانی بھی نہیں

غم ہے لیکن روح پر طاری نہیں
شادمانی، شادمانی بھی نہیں

جس میں آخر ہنستے بستے ہیں سبھی
یہ کہانی، وہ کہانی بھی نہیں

کچھ کچھ اندازہ تھا اس دل کا مجھے
عشق ایسا ناگہانی بھی نہیں

یاد رہ جائے گی بس اک آدھ بات
داستاں یہ جاویدانی بھی نہیں

کل مری بستی میں اک سیلاب تھا
آج دریاؤں میں پانی بھی نہیں

گو ہماری ترجماں ہے یہ غزل
یہ ہماری ترجمانی بھی نہیں

محمد احمدؔ

جو سنتا ہوں کہوں گا میں ۔ انور شعورؔ کی دو غزلیں


انور شعور ؔ عہدِ حاضر کے اُن  شعراء میں سے ہیں جن کا کلام اُن کو بہت سے دوسرے ہم عصر شعراء  سے ممتاز کرتا ہے۔ انور شعور کے ہاں جو  بے ساختگی اور  بے باکی ہمیں ملتی ہے وہ دیگر  شعراء میں شاذ ہی نظر آتی ہے ۔ بے باکی کو  اشعار  میں برتنا ، وہ بھی ایسے کہ شعر کا فطری حسن  ، نزاکتِ خیال اور  نغمگی  متاثر نہ ہو، آسان ہرگز نہیں ہے لیکن انور شعور کے ہاں ایسے اشعار جا بجا نظر آتے ہیں اور اُن کی قادر الکلامی پر دلالت کرتے ہیں۔   اُن کی دو خوبصورت غزلیں اہلِ  ذوق کی نذر کی جا رہی ہیں  جو  اپنی مثال آپ ہیں اور انور شعور کی  دل پزیر  شاعری کی  تمثیل بھی ہیں۔


غزل

توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے
حاصل کسی طرح کی سعادت نہیں مجھے

جب سے سنی ہیں متّقیوں کی کرامتیں
اپنے کیے پہ کوئی ندامت نہیں مجھے

دل چاہتا تو ہے کہ ہَوس کاریاں کروں
لیکن یہ استطاعت و ہمّت نہیں مجھے

خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے

تا حشر حاسدوں کو سلامت رکھے خدا
ان کے طفیل کون سی راحت نہیں مجھے

درپے ہُوا ہی کرتے ہیں کج فہم و کم نظر
ان احمقوں سے کوئی شکایت نہیں مجھے

لکھّی گئی ہیں نامہ ء اعمال میں مرے
جن لغزشوں سے دور کی نسبت نہیں مجھے

کیا کیا ہُوئیں نہ حوصلہ افزائیاں کہ اب
زنہار صبر و ضبط کی طاقت نہیں مجھ

چُپ ہوں کہ بارگاہِ حقیقت پناہ سے
اسرار کھولنے کی اجازت نہیں مجھے

انور شعورؔ

*******

جو سنتا ہوں کہوں گا میں، جو کہتا ہوں سنوں گا میں
ہمیشہ مجلسِ نطق و سماعت میں رہوں گا میں

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ ء سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں

کم از کم گھر تو اپنا ہے، اگر ویران بھی ہوگا
تو دہلیز و در و دیوار سے باتیں کروں گا میں

یہی احساس کافی ہے کہ کیا تھا اور اب کیا ہوں
مجھے بالکل نہیں تشویش آگے کیا بنوں گا میں

مری آنکھوں کا سونا چاہے مٹی میں بکھر جائے
اندھیری رات! تیری مانگ میں افشاں بھروں گا میں

تساہل ایک مشکل لفظ ہے، اس لفظ کا مطلب
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں، کسی سے پوچھ لوں گا میں

حصول آگہی کے وقت کاش اتنی خبر ہوتی
کہ یہ وہ آگ ہے جس آگ میں زندہ جلوں گا میں

اُداسی کی ہوائیں آج پھر چلنے لگیں؟ اچھا
تو بس آج اور پی لوں، کل سے قطعا` چھوڑ دوں گا میں

کوئی اک آدھ تو ہوگا مجھے جو راس آجائے
بساطِ وقت پر ہیں جس قدر مہرے چلوں گا میں

نہ لکھ پایا ترے دل میں اگر تحریرِ غم اپنی
تری ماتھے پہ اک گہری شکن ہی کھینچ دوں گا میں

کیا ہے گردشوں سے تنگ آ کر فیصلہ میں نے
کہ محنت کے علاوہ چاپلوسی بھی کروں گا میں

اگر اس مرتبہ بھی آرزو پوری نہیں ہوگی
تو اس کے بعد آخر کس بھروسے پر جیوں گا میں

یہی ہوگا، کسی دن ڈوب جاؤں گا سمندر میں
تمناؤں کی خالی سیپیاں کب تک چنوں گا میں

انور شعورؔ