قتیل شفائی کی سدا بہار غزل

غزل

جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کیلئے
آ پڑے مشکل تو نظر یں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ

خود فریبی کی انھیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

ہے بجا اِن کی شکایت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ

ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کیلئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ

اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ

یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آجائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ

روشنی ہے اُن کا ایماں روک مت اُن کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا ،تیرا کیا لیتے ہیں لوگ

قتیل شفائی

غزل ۔ ہے کون کون اہلِ وفا دیکھتے رہو​ ۔ امجد علی راجاؔ


امجد علی راجا بہت اچھے شاعر ہیں۔ گو کہ ان کی شہرت ان کا ظریفانہ کلام ہے تاہم سنجیدہ شاعری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ امجد علی راجا صاحب کی ایک غزل آپ کی نذر:

غزل

ہے کون کون اہلِ وفا دیکھتے رہو​
دیتا ہے کون کون دغا دیکھتے رہو​
پوچھا جو زندگی سے کہ کتنے ستم ہیں اور​
بس مسکرا کر اس نے کہا، دیکھتے رہو​
رکھا کسی نے بام پہ ٹوٹا ہوا چراغ​
اور ہے غضب کی تیز ہوا، دیکھتے رہو​
اٹکی ہوئی ہے جان مرے لب پہ چارہ گر​
شاید وہ آہی جائے ذرا دیکھتے رہو​
انجام ہے تباہی تکبر ہو یا غرور​
ہر شخص بن گیا ہے خدا، دیکھتے رہو​
عریاں ہوا ہے حسن نمائش کے شوق میں​
نایاب ہو گئی ہے حیا، دیکھتے رہو​
کرتے ہو حق کی بات ستمگر کے روبرو​
راجا تمہیں ملے گی سزا دیکھتے رہو​

امجد علی راجاؔ​

شاعر: امجد علی راجا

دماغ آفریدی خلل آفریدم


حضرتِ اقبال کی خوبصورت نظم کا بہت ہی خوب بیڑہ غرق کیا ہے جناب رشید عبد السمیع جلیل صاحب نے؛ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ 

دماغ آفریدی خلل آفریدم
کروں جلد شادی یہ حل آفریدم

'جہاں را زِ یک آب و گل آفریدی'
اسی آب و گل سے محل آفریدم

'تو از خاک فولادِ ناب آفریدی'
میں دھونے دھلانے کو نل آفریدم

تو دنیا میں لاکھوں حسیں آفریدی
میں دل میں ہزاروں کنول آفریدم

تو فردوس و خلدِ بریں آفریدی
زمیں پر میں نعم البدل آفریدم

تری حکمتیں بے نہایت الٰہی
میں از روئے حکمت کھرل آفریدم

مجھے رات دن چاہیے بے خودی سی
اسی واسطے الکحل آفریدم

رشید عبدالسمیع جلیل