نظم : ٹھیک ہی تو کرتے ہیں ۔۔۔ سید شعیب نعیم

ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

روندتے مسلتے ہیں
روز گھاس کو ہم سب
پاؤں سے کچلتے ہیں
ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

یہ جو گھاس ہوتی ہے
آب کے کنارے پر 

ڈوبتا کوئی بھی ہو
ہاتھ اگر بڑھائے تو
ہاتھ تھام لیتی ہے
اپنی تاب سے بڑھ کر
اژدہے سے پانی کے
اس کو چھین لینے کی
کوششیں وہ کرتی ہے

اور اگر وہ یہ دیکھے
آب جیت سکتا ہے
کوئی ڈوب سکتا ہے
پھر بھی ڈوبتے کو یہ
چھوڑ تو نہیں دیتی
مثلِ یار، یہ نظریں
پھیر تو نہیں لیتی 

اور جب کوئی ڈوبے
ساتھ ڈوب جاتی ہے
آب جس جگہ کھینچے
آب جس جگہ پھینکے
ساتھ ساتھ رہتی ہے
جس کا ہاتھ تھاما تھا
اُس کے ساتھ جیتی ہے
اُس کے ساتھ مرتی ہے



سید شعیب نعیم