غزل
تصویر ہے یا کوئی پری ہے
کیا سلسلہ ٴ خوش نظری ہے
ہونٹوں پہ ہیں کچھ برف زدہ لفظ
سینے میں عجب آگ بھری ہے
کچھ بھی نہیں یہ نیند یہ بستر
جو کچھ بھی سب خواب گری ہے
جینے کے لئے پاس ہمارے
تقدیر ہے اور رنج وری ہے
دل ہے تو بہت درد کے امکاں
سر ہے تو بہت دردِ سری ہے
انجامِ سفر ایک تھکن بس
رودادِ خبر بے خبری ہے
مل جائے تو کچھ بھی نہیں دنیا
کھو جائے تو جادو نگری ہے
احمد صغیر صدیقی
ظالم غزل ہے سرکار۔۔۔ بہت پسند آئی۔۔۔ لاجواب
جواب دیںحذف کریں