زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

غزل

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

منیر نیازی

ایک شاعر کے دو متضاد اشعار

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت عجیب و غریب بنایا ہے ۔ یہ بہ یک وقت متضاد خیالات میں گھرا رہتا ہے ۔ اس میں نیکی اور بدی ایک ساتھ قیام پذیر رہتی ہے اور یہ اکثر اُمید و نا اُمیدی کے مابین کہیں بہتا نظر آتا ہے۔ مجھے آج جناب پیرزادہ قاسم کے دو اشعار ایک ساتھ یاد آئے جو دیکھا جائے تو ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں۔ لیکن انسانی زندگی اسی مد و جزر کا نام ہے۔

اشعار یہ ہیں۔

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو طاقتِ پرواز پر میں رہنے دو


عجب نہ تھا کہ قفس ساتھ لے کے اُڑ جاتے
تڑپنا چاہیے تھا، پھڑپھڑانا چاہیے تھا

 

اب میں یہ سو چ رہا ہوں کہ شاعر نے ان میں سے پہلے کون سا شعر کہا ہوگا۔ اور کیا شاعر کو خود بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ اس کے یہ دو اشعار بالکل ایک دوسرے کے متضاد ہیں؟

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نظم

گریباں پسینے میں تر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اُدھر کا مسافر اِدھر ہو رہا ہے

جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کوئی پہلواں سیٹ میں دھم گیا ہے
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے
کوئی ناک دیوار پہ تھم گیا ہے

کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جواں کچھ سرِ پائے داں اور بھی ہیں
دریچوں میں سروِ رواں اور بھی ہیں
قطاروں میں بیوی میاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ہجوم اور بھی معتبر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

وہ اک پیل تن یوں سمٹ کر کھڑا ہے
کہ پیٹ اس کا دھڑ سے الگ جا پڑا ہے
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے
مقدر کو دیکھو کہاں جا لڑا ہے

تماشا سرِ رہگزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جو خوش پوش گیسو سنوارے ہوئے تھا
بہت مال چہرے پہ مارے ہوئے تھا
بڑا قیمتی سوٹ دھارے ہوئے تھا
گھڑی بھر میں سب کچھ اتارے ہوئے تھا

بے چارے کا حلیہ دگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کوئی بے خبر گُل فشاں ہو گئی ہے
تو لاری کی لاری جواں ہو گئی ہے
طبیعت اچانک رواں ہو گئی ہے
ملاقات اُن سے کہاں ہو گئی ہے

نظر سے طوافِ نظر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کبھی پیش سے گھٹ کے پس ہو گئی ہے
کسی پیچ میں پیچ کس ہو گئی ہے
چلی ہے تو بانگِ جرس ہو گئی ہے
رکی ہے تو ٹھَس ہو کے بَس ہو گئی ہے

نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے

کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
 
سید ضمیر جعفری


ہم نے پہلے دیکھ رکھے ہیں یہ تیرے سبز باغ

غزل

عادتاً دیکھو تو دیکھو ہر سویرے سبز باغ
بقعہء اُمید میں ڈالیں نہ ڈیرے سبز باغ

اے مرے ہمدم اُلجھتا کیوں ہے تو مجھ سے بھلا
مختلف ہیں بس ذرا سے تیرے میرے سبز باغ

ہاتھ نیچے کرفسوں گر، مت ہمیں پاگل بنا
ہم نے پہلے دیکھ رکھے ہیں یہ تیرے سبز باغ

میں بھی ہوں محوِ تغافل، تو بھی ہے غفلت گزیں
میرے خوابوں سے کہاں بہتر ہیں تیرے سبز باغ

رات اک شب خون میں گزری مگر شاباش ہے
دیکھنے والوں نے دیکھے منہ اندھیرے سبز باغ

ساحر ِ شب تیرے فن کا معترف ہوں، واقعی
دلکش و رنگیں بہت ہیں سب یہ تیرے سبز باغ

اے خدا میرے چمن کو خیر خواہوں سے بچا
ایک نخلِ زرد اور اتنے لُٹیرے سبز باغ

ہم نے سینچا خود سرابوں سے انہیں احمدؔ، سو اب
دشت دل میں اٹ گئے دسیوں گھنیرے سبز باغ

محمد احمدؔ