رسمی عبارات میں رومن اردو کا استعمال

ہم پاکستانیوں نے رومن اردو ایک مجبوری کے تحت اپنائی۔ یہ وہ وقت تھا جب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو رسم الخط موجود نہیں تھا۔ سو پاکستانی اردو زبان لکھنے کے لئے رومن رسم الخط استعمال کرنے لگے (یعنی انگریزی حروفِ تہجی کی مدد سے اردو لکھنے لگے)۔ اردو محفل اور دیگر اردو کمیونیٹیز کی ان تھک کوششوں کے باوجود اردو دنیا میں یونیکوڈ اردو کا چلن عام ہوتے ہوتے بہت وقت لگا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ یونی کوڈ اردو کو صحیح معنوں میں قبول عام تب ملا جب نستعلیق فونٹ متعارف کروایا گیا۔
 

یہی حال موبائل کمیونیکیکیشن کے معاملے میں ہوا۔ شروع شروع میں جب موبائل ٹیکنالوجی نئی نئی آئی تو لوگ اردو لکھنے کے لئے رومن حروفِ تہجی سے کام چلانے لگے ۔ موبائل فون کا استعمال عام ہوا تو ایس ایم ایس پیغامات بہ کثرت استعمال ہونے لگے ۔ اس طرح ہماری اکثریت بالخصوص نوجوان رومن اردو روانی سے لکھنے لگے اور اُن کی یہ عادت ایسی پختہ ہوئی کہ موبائل فون پر اردو کی سہولت میسر آنے کے باوجود بھی وہ اپنے روز مرہ پیغامات رومن اردو میں ہی لکھتے رہے۔یہ چلن ایسا عام ہوا کہ اسے ہی معیار سمجھ لیا گیا اور اب اگلوں کی دیکھا دیکھی نئی نسل کے نوجوان بھی موبائل پر اردو لکھنے کے لئے رومن حروف ہی استعمال کیا کرتے ہیں ۔ حالانکہ ایک عرصہء دراز سے موبائل اور کمپیوٹر پر اردو لکھنے کی سہولت موجود ہے۔

رومن اردو لکھنے میں قباحت کیا ہے؟

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رومن اردو لکھنے میں قباحت کیا ہے؟

اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ رومن حروفِ تہجی میں اردو لکھنا ایسا ہی ہے جیسے انگریزی زبان کو اردو میں لکھنا۔ مثال کے طور پر۔

وی ہیو ناٹ بین دیئر فار سو مینی ڈیز۔
یا
سچ بی ہیوئیر ڈز ناٹ میک اینی سینس

ممکن ہے کے یہ جملے اردو پڑھ لینے والوں کی سمجھ آ بھی جائیں۔ لیکن دنیا اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوگی کہ جب بھی انگریزی لکھی جائے ایسے ہی لکھی جائے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس بات پر راضی ہو گئے کہ جب بھی اردو لکھی جائے وہ رومن میں ہی لکھی جائے حالانکہ اردو زبان اپنا ایک الگ خوبصورت رسم الخط رکھتی ہے۔ اور اب ہر قسم کی ڈیوائسز پر اردو لکھنے کی سہولت بھی موجود ہے۔

اردو رسم الخط میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی

اردو رسم الخط میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی کے پیچھے کئی ایک عوامل کار فرما ہیں۔

سہل پسندی:

موبائل فون پر چیٹنگ اور سوشل میڈیا کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہمارے نوجوان رومن رسم الخط میں اردو بہت روانی سے لکھنے لگے ہیں۔ اور اس طرح لکھنا اُن کے لئے بے حد آسان ہو چکا ہے بلکہ ایک پختہ عادت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ سو جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ رومن اردو کے بجائے اردو رسم الخط کا استعمال کریں تو یہ اُن کے لئے مشکل کا باعث بنتا ہے اور خیالات کے تسلسل کو روانی کے ساتھ اردو میں لکھ لینا اُن کےلئے ایک دشوار عمل بن جاتا ہے۔ اور وہ اپنی سہل پسندی کے باعث بہت جلد اردو رسم الخط کو چھوڑ کر واپس رومن اردو پر پلٹ آتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ لوگ دلجمعی سے ایک دو ہفتے اردو رسم الخط لکھتے رہیں تو لکھائی میں روانی آ جائے گی اور پھر کبھی رومن اردو لکھنے کا خیال تک نہیں آئےگا۔

ناقص اردو:

اردو رسم الخط سے پہلو تہی کرنے کی ایک اور بنیادی وجہ نوجوانوں کا اپنی زبان اردو اور اس کے املے پر عبور نہ ہو نا ہے۔ ہمارے ہاں جب رومن اردو لکھی جاتی ہے تو اس کا کوئی قائدہ قانون نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے لکھتا ہے اور اس کے پڑھنے والے سمجھ بھی جاتے ہیں (ہے نا مزے کی بات)۔ لیکن اردو لکھتے ہوئے یہ سہولت نہیں ملتی۔ اردو میں آپ ناقص کو ناقس نہیں لکھ سکتے اور نہ ہی ضامن کو زامن یا ذامن لکھ سکتے ہیں۔ یہاں اردو لکھنے والوں کو ہر ہر لفظ کا درست املا یاد ہونا ضروری ہے ۔ اور اردو زبان پر کما حقہ گرفت نہ ہونے کے باعث ہمارے نوجوان اردو لکھنے کے بجائے رومن اردو کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

رسم الخط کی اہمیت سے نا واقفیت:

ہمارے بچےاردو رسم الخط کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اگر ہم ترکی کی مثال لیں کہ جنہوں نے مصصفیٰ کمال پاشا جیسے نا عاقبت اندیش شخص کے دور میں اپنے رسم الخط سے ہاتھ دھو لیے، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ترکی کو اس کا کافی نقصان ہوا۔ ترکی نے جب اپنے رسم الخط کو چھوڑ کر رومن حروفِ تہجی پر اکتفا کر لیا تو وہ آہستہ آہستہ اپنے علمی اور ادبی ورثے سے لاتعلق ہوتے گئے۔ اور ایک وقت آیا کہ زبان کی عدم واقفیت کے باعث نئی نسل کے لئےاپنی ہی شاندار ماضی کی کتابیں اجنبی بن گئیں۔ ترکی کو اپنا رسم الخط چھوڑ کر رومن حروف کو اپنانے سے ممکن ہے کہ کچھ فائدے بھی پہنچے ہوں لیکن اگر طویل مدتی اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ بڑھ کر ثابت ہوئے۔

اگر ہمارے بچے بھی اپنے رسم الخط سے اسی طرح بے اعتنائی برتتے رہے تو خدانخواستہ ہمارا انجام بھی ترکی کے جیسا ہی ہوگا۔ اللہ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے۔ اور ہمارے بچوں کو اردو رسم الخط کی اہمیت کو سمجھنے کے توفیق عطا فرمائے۔

کاروباری اداروں اور اشتہاروں میں رومن اردو کا استعمال

چلیےیہاں تک تو سمجھ آتا ہے کہ ہمارے بچے چند وجوہات اور کسل مندی کے باعث رومن اردو لکھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی رسمی اور غیر رسمی عبارات اور اشتہارات میں رومن اردو کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بات کسی بھی طرح معقول نہیں ہے۔

ہمارے ہاں موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو جو پیغامات بھیجتی ہیں اُن کی اکثریت رومن اردو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ کمپنیاں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک پر رومن اردو ہی کو جگہ دیتی ہیں۔ حالانکہ یہ اُن کمپنیوں کا اپنے خریداروں سے رسمی مکالمہ ہے اور اس میں بے تکلفی کے نام پر بھی رومن اردو کی گنجائش نہیں ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ٹی وی ، پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع پر نظر آنے والے اشتہارات میں رومن اردو کا بے دریغ استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ ایک تو پہلے ہی انگریزی کی وجہ سے اردو کو اُس کا مقام نہیں ملتا۔ جو تھوڑی بہت جگہ اردو کی بن جاتی ہے اُس میں بھی یہ لوگ رومن اردو گھسا دیتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی طرح گوارا نہیں ہے۔

مذکورہ اداروں کے پاس رومن اردو کے استعمال کا کوئی عذر موجود نہیں ہے۔ ان کے ہاں ایک سے ایک قابل شخص موجود ہوتا ہے اور اُن میں سے اکثر لوگ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ کمپنی کے پیغامات کوئی نو عمر نوجوان تو ترتیب دیتے نہیں ہیں کہ جنہیں صلاحیت اور قابلیت کے فقدان کا سامنا ہو۔ نہ ہی ان اداروں کے پاس تکنیکی صلاحیت والے لوگوں کی کمی ہے کہ اردو زبان لکھنے میں اُنہیں کسی سافٹ وئیر وغیرہ کی کمی محسوس ہو (حالانکہ آج کل تو آپ موبائل سے بھی با آسانی اردو لکھ لیتے ہیں)۔ یعنی کسی بھی طور پر ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہیں ہے۔

بات دراصل ترجیحات کی ہے۔ پاکستان میں کاروبار کرنے والی مقامی اور غیر مقامی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستانی زبان کو بھی اہمیت دیں اور اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ تاکہ اس مٹی کا کچھ تو قرض ادا ہو سکے۔

محمد احمدؔ​
******​