[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں ۔ سردار جعفری

غزل 

ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں
رنگ بردوش، گلستاں بہ کنار آتے ہیں

چاک دل، چاک جگر، چاک گریباں والے
مثلِ گُل آتے ہیں، مانندِ بہار آتے ہیں

کوئی معشوق سزاوارِ غزل  ہے شاید
ہم غزل لے کے سوئے شہرِ نگار آتے ہیں

کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں
جا کے ہم کوچہ ٴ قاتل میں پکار آتے ہیں

قافلے شوق کے رُکتے نہیں دیواروں سے 
سینکڑوں محبس  و زنداں کے دیار آتے ہیں

منزلیں دوڑ کے روہرو کے قدم لیتی ہیں
بوسہ ٴ پا کے لئے رہ گزار آتے ہیں

خود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہر
پار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں

کم ہو کیوں ابروئے قاتل  کی کمانوں کا کھنچاؤ
جب سرِ تیرِ ستم آپ شکار آتے ہیں

سردار جعفری

1 تبصرہ: