غزل
میں خموشی سے رات سوئی تھی
میرے پہلو میں بات سوئی تھی
اک بدن پالکی میں جاگتا تھا
اور ساری برات سوئی تھی
بسترِ شب پہ آسماں اوڑھے
بے خبر کائنات سوئی تھی
اے پری زاد تیرے ہجرے میں
ایک عورت کی ذات سوئی تھی
اک طرف سائبان بیٹھا تھا
ایک جانب قنات سوئی تھی
ڈوبنے لگ گئے کنارے بھی
پانیوں میں نجات سوئی تھی
جانے کس درد کا تذبذب تھا
ہونٹ جاگے تھے بات سوئی تھی
ایک ٹھوکر سے جاگ اُٹھی تھی
راستے میں حیات سوئی تھی
مرگِ دائم تھا رت جگا بشریٰ
زندگی بے ثبات سوئی تھی
بشریٰ اعجاز
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں