غزل : زعمِ عہدِ سلف میں رکھا ہوا

غزل

زعمِ عہدِ سلف میں رکھا ہوا
خاکزادہ ، خذف میں رکھا ہوا

سُونی سُونی ہے سوزنِ مژگاں
ہے نگینہ صدف میں رکھا ہوا

منزلیں مل گئیں تو ہوگا کیا ؟
ایسا کیا ہے ہدف میں رکھا ہوا

تھے وہاں سب بہ امرِ مجبوری
میں بھی تھا ایک صف میں رکھا ہوا

یہ ترا سنگِ در ، یہ دروازہ
اور ہُوں اِک طرف، میں رکھا ہوا

پھول صحرا میں منتظر اُنؐ کے
سازِ اُلفت تھا دف میں رکھا ہوا

ایک لمحہ مرا بھی ہے احمدؔ
ایک عہدِ سلف میں رکھا ہوا

محمد احمدؔ


غزل: آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند

غزل

آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند
تھی ہماری بھی کیا کمال پسند

حیف! بد صورتی رویّوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند

کیوں بنایا تھا ٹِھیکرا دل کو
کیوں کیا ساغرِ سفال پسند

ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں
لیکن اس درجہ پائمال پسند

سچ نہ کہیے کہ سچ ہے صبر طلب
لوگ ہوتے ہیں اشتعال پسند

ہاں مجھے آج بھی پسند ہے وہ
اس کو کہتے ہیں لازوال پسند

حلم ہے اہلِ علم کا شیوہ
جاہ والوں کو ہے جلال پسند

وصل کو ہجر ، ناگہانی موت
ہجر کو موسمِ وصال پسند
 

فکرِ دنیا نہیں! مجھے احمدؔ
اپنی مستی اور اپنی کھال پسند

محمد احمدؔ​

غزل: اوس کہتی ہے رات روئی ہے

غزل

اوس کہتی ہے رات روئی ہے
ابر کہتا ہے اور کوئی ہے

اشک قرطاسِ دل پہ برسے ہیں
حرف و معنی کی فصل بوئی ہے

میں تمھاری طرح نہ بن پایا
میں نے اپنی شناخت کھوئی ہے

جاگتے خواب مجھ سے کہتے ہیں
نیند کن وادیوں میں سوئی ہے

خود کلامی کی خُو نہیں جاتی
کچھ نہیں ہے تو شعر گوئی ہے

کیا اُنہیں حالِ دل بتا دوں میں
وہ جنہیں زعمِ اشک شوئی ہے

محمد احمدؔ​