دلِ من مُسافرِ من

دلِ من مُسافرِ من

مرے دل، مرے مُسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سُراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بَر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بَلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت 
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا

فیض احمد فیضؔ

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک  گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا

گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا

شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا

حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا

اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا

آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا

کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا 


******

کشتِ اُمّید بارور نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہُوئی

ہم مُسافر تھے دھوپ کے ہم سے
ناز برداریِ شجر نہ ہُوئی

مُجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف 
سب نے دیکھا مِری نظر نہ ہُوئی

گھر کی تقسیم کے سِوا  اب تک 
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہُوئی

نام میرا تو تھا سرِ فہرست 
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہُوئی

جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گُزری اُسے خبر نہ ہُوئی

لیاقت علی عاصم 

مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی - منیر نیازی

غزل 

آگئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

کُھل گئے شہرِ غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی

کون تھا تُو کہ پھر نہ دیکھا تُجھے
مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی

خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہِ شب تاب کے نکلتے ہی

تُو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکسِ دیوار کے بدلتے ہی

خون سا لگ گیا ہے ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی

منیر نیازی

ماہِ منیر سے انتخاب

اھے وائے ۔۔۔۔ رشید احمد صدیقی

اھے وائے 
رشید احمد صدیقی کی تحریر "پاسبان" سے اقتباس

سفر شروع ہوا راستے میں ایک درگاہ پڑتی تھی زیارت کے لئے اُتر پڑا ۔ اسباب سرائے میں رکھ کر درگاہ پہنچا۔ جو توقعات بن دیکھے قائم کی تھیں ان میں مایوسی ہوئی اور  وہاں کے پاسبانوں کو دیکھ کر جان و مال کا اتنا نہیں تو آبرو جانے کا اندیشہ ضرور ہوا۔  لمبی چوڑی عمارت ،گندگی، گداگر،  تنو مند ترش رو مجاور ہر طرف کہنگی اور زوال کے آثار۔ سمجھ میں نہ آیا کیا کروں۔ خیال آیا  قوالی سے کام لوں لیکن اشعار یاد نہ گانے سے واقفیت۔ تالی بجانے کی مشق کالج میں کی تھی لیکن کالج کی تالی اور مزار کی تالی میں بڑا فرق تھا اور اس فرق کو خادموں اور مجاورں نے محسوس کر لیا تو یہاں کوئی ایسا تو ہے نہیں جو اس کا قائل ہو کہ تالی دونوں ہاتھ سے بج سکتی ہے ممکن ہے تالی کا پرچہ ترکیب استعمال کچھ اور ہی ہو مثلاً  ایک ہی ہاتھ سے بجائی جاتی ہو خیال آیا کہ گو اشعار تالی اور قوالی وغیرہ کچھ نہیں آتی لیکن قوالی کی  ایک چیز آتی ہے۔ یعنی  "اھے وائے!" 


چنانچہ کچھ سوچتا کچھ گنگناتا بہت کچھ ڈرتا ہوا داخلِ عمارت ہوا۔ پاسبان نے ایسی پاٹ دار آواز میں للکارا کہ ساری عمارت گونج گئی اور میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ "قدم درویشان ردِّ بلا"  ۔ پھر نہایت لجاجت سے فیس داخلہ طلب کی۔ بات سمجھ میں نہ آئی اس لئے کہ میرے قدم ردِّ بلا تھے تو اس کی فیس کیسی اور کسی دوسرے کے تھے تو اس کا اعلان مجھے دیکھ کر کیوں !  پھر سوچنے لگا کہ ممکن ہے شکل کے اعتبار سے میں درویش ہوں قدم کے اعتبار سے یہ لوگ یا کوئی اور بزرگ ردِّ بلا ہوں۔ عرض کیا جناب پیسے ہوتے تو وطن ہی کیوں چھوڑتا۔ اس اُمید پر حاضر ہوا ہوں کہ حضرت کے فیض سے کچھ پیسے مل جائیں گے۔

فرمایا آپ بڑے آدمی ہیں اللہ نے بہت کچھ دیا ہے، عرض کیا یہ آپ کا حسنِ ظن ہے لیکن رائے صحیح نہیں قائم فرمائی۔ میں مفلس عیال دار ہوں اُسی اعتبار سے مقروض اور مریض بھی۔ کہنے لگے بجا ۔ لیکن جب تک کچھ خیر خیرات نہ کیجے گا حضرت کی خوشنودی کیوں کر حاصل ہوگی۔  کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ دبی  زبان سے عرض کی جناب یہ مزار شریف ہے یا امپیریل بنک! پاسبان نے کچھ اس طرح گھور کر دیکھا کہ مارے خوف کے دل سینے میں اور چونی جیب میں لرزنے لگی۔ چوّنی دربان کی خدمت میں پیش کی اور اھے وائے کہتا ہوا چار سورماؤں کی حفاظت یا حراست میں آگے بڑھا۔ ایک مقام پرطائفہ  کھڑا ہو گیا۔ حکم ہوا حضرت نے یہاں وضو کیا تھ۔ اکنّی رکھ دو ۔ اکنّی کے ساتھ ایک بزرگ بھی تخفیف میں آگئے۔ دوسری منزل پر بتایا گیا کہ حضرت نے یہاں چلّہ کھینچا تھا آٹھ آنے نذر کے پیش کرو۔ وہ بھی پیش کر دیئے ، ایک صاحب اور کم ہو ئے۔ ایک اور مقام پر پہنچے ارشاد ہوا  بارہ آنے رکھ دو حضور نے یہاں دعا مانگی تھی۔  تم بھی دعا مانگ لو۔  پوچھا کیا آپ بتاسکتے ہیں حضور نے کیا دعا مانگی تھی کہنے لگے یہی مانگی ہوگی کہ خدا مسلمانوں کو جملہ آفات و بلیّآت  سےمحفوظ رکھے۔ میں نے کہا اہے وائے، وہ دعا کب مقبول ہوئی کہ میں بھی مانگوں۔ اس پر دوست بہت برہم ہوئے اور کچھ تعجب نہ ہوتا اگر نقصِ  امن کی نوبت آجاتی ۔ میں نے مطلوبہ رقم ان کے ہاتھ پر رکھ دی جس کا کرشمہ یہ تھا کہ اُن کا ولولہ ِجہاد مزاج شریف اور دعائے لطیف پر ختم ہوگیا۔ 

پوچھنے لگے حضرت کا آنا کہاں سے ہوا۔ عرض کیا ٹمبکٹو سے۔  فرمایا وہاں مزارات ہیں ؟ کہاں جہاں کہیں مسلمان ہوں گے مزارات بھی ہوں گے۔ پوچھا متولی اور سجادہ نشین کون ہیں۔ کہاں فی الحال تو یہ خاکسار ہی ہے اور اس وقت مزارات کے مسائل پر تحقیقات کرنے ہندوستان آیا ہے۔ پوچھا اوقاف کی آمدنی کیسی ہے ۔ جواب دیا کافی سے زائد ہے۔ کہنے لگے اگر میری خدمات کی ضرورت ہو تو حاضر ہوں، یہاں حالات تو نہایت زار ہے۔  متولی صاحب پر ایک عورت اور ایک انگریز کا بڑا اثر ہے۔ مزار شریف کی ساری آمدنی انہی پر صرف ہوتی ہے۔ ہم خدام تو بس اُسی روکھی پھیکی پر بسر کرتے ہیں جو آپ لوگوں سے مل جاتی ہے۔ عرض کیا، کیا کیجے گا  انگریز  اور  عورت سے کسے اور کہاں مفر ہے۔ 

ایک دوسرے خادم کے ہمراہ آگے بڑھا اور ایک کھڑکی کے قریب پہنچا ساتھی نے کہا ایک روپیہ نذر کیجے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر دعا مانگئے قبول ہوگی۔  عرض کیا یہ ایک روپیہ حاضر ہے۔ دعا مانگنے کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔ کہنے لگے نہیں جناب یہ یہاں کا دستور ہے آپ مزار شریف کی توہین کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ بات نہیں ہے حواس پر قابو نہیں الٹی سیدھی دعا مانگ گیا تو کیا ہوگا۔ کہنے لگے دعا مانگنی پڑے گی۔ اس آستانے سے کوئی محروم نہیں گیا۔ مجبوراً کھڑکی  میں منہ ڈال کر کھڑا ہوگیا۔ رفیق نے للکارا دعا  مانگو اور ہم سے کیا پردہ باآوازِ بلند مانگو۔ عرض کیا اس سے ممکن ہے صاحبِ مزار کے آرام میں خلل پڑے گا ۔ فرمایا اس کا خیال نہ کرو۔ ہم سنبھال لیں گے۔ میں نے دعا مانگی۔  "اے برگزیدہ روح دعا فرمائیں کہ اس گنہگار اور بدبخت کو آج سے پھر کسی مزار یا مجاور سے سابقہ نہ پڑے۔"

یاد نہیں آتا کہ کھڑکی کے اندر سے خود گردن باہر نکالی یا اس کے لئے اپنے رفیق کا احسان مند ہونا پڑا۔ اہے وائے کرتا مزار شریف سے تنہا باہر آیا۔ بعض فقرا اور مساکین نے ہمدردی کرنا چاہیے لیکن آخری کرم فرما نے وہیں سے للکارا "خبردار وہابی ہے!" سرائے پہنچا تو سامان غائب۔  اہے وائے۔