[ہفتہ ٴ غزل] ۔ نمکین غزل

نمکین غزل

سوچتے ہیں کہ ہفتہ ء غزل میں ایک آدھ نمکین غزل بھی شامل کی جائے لیکن ہم تو یہ بھی سوچتے ہیں کہ یہ نمکین غزل آخر ہوتی کیا ہے۔ گو کہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ نمکین غزل کیا ہوتی ہے لیکن بات آتی ہے وجہ تسمیہ پر۔

کہا جاتا ہے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہنچانی جاتی ہیں۔ یعنی روشنی کو پہچاننے کے لئے اندھیرے کو سمجھنا ضروری ہے اور کھرے کی شناخت کے لئے کھوٹے کی پہچان ضروری ہے تاہم نمکین غزل اِ س فارمولے کے تحت بھی درونِ خانہ رسائی دینے کو تیار نہیں ہے۔ نمکین غزل کو براستہ ضد سمجھنے نکلیں تو ہم میٹھی غزل تک پہنچتے ہیں تاہم پتہ یہ چلتا ہےکہ اس قسم کی کوئی غزل کہیں نہیں پائی جاتی ۔ یہاں تک کہ وہ 'غزل' بھی جو دیکھنے میں کافی میٹھی نظر آتی ہے، سُننے میں کافی ترش معلوم ہوتی ہے اور دشمنوں حتیٰ کہ دوستوں کے بھی دانت کھٹے اور ارمان ٹھنڈے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔بہرکیف اُس والی غزل کی بات پھر کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں اور واپس آتے ہیں میٹھی غزل کی طرف کہ جس کی مدد سے ہم نمکین غزل کو سمجھنا چاہ رہے تھے ۔ تاہم تلاش بسیار کے باوجود غزل کے ساتھ مٹھاس کا تصور ہمیں کہیں نہیں ملا کہ زیادہ تراردو شاعری آہوں اور آنسوؤں سے گندھی ہوئی ملا کرتی ہے اور تلخیوں اور اشکوں کی آماجگاہ ہونے کے باعث تلخی اس کا لازمی جز۔ سو شیرینی کا عشرِ عشیر بھی یہاں میسر نہیں ہے۔


اسی نکتے پر مزید غور کرنے سے بہرکیف اس گتھی کا ایک سِرا ضرور ہاتھ آتا ہے اور وہ یہ کہ چونکہ زیادہ تر شاعری غم و آلام اور آہ و اشک کی بھرمار کے باعث تلخ یعنی کڑوی ہوتی ہے سو ایسی شاعری جس میں آنسوؤں کے ساتھ کچھ قہقہے بھی شامل کردیے جاتے ہیں اور اُس کی کڑواہٹ کچھ کم ہو کر نمکینی میں بدل جاتی ہے ، نمکین شاعری یا نمکین غزل کہلاتی ہے۔

ہمیں نہیں پتہ کہ 'نمکین غزل' کی اصطلاح سب سے پہلی بار کس نے، کب، کہاں اور کیوں وضع کی تاہم مزاحیہ غزل کے لئے یہ نام خوب جچتا ہے۔ تو پھر آئیے کہ کچھ منہ کا ذائقہ بدلیں اور دلاور فگار کی نمکین غزل کا مزہ لیں۔

میں نےکہاکہ شہر کے حق میں دعا کرو
اس نے کہا کہ بات غلط مت کہا کرو

میں نےکہاکہ رات سے بجلی بھی بند ہے
اس نے کہا کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو

میں نےکہاکہ شہر میں پانی کا قحط ہے
اس نے کہا کہ پیپسی کولا پیا کرو

میں نےکہاکہ کار ڈکیتوں نے چھین لی
اس نے کہا کہ اچھا ہے پیدل چلا کرو

میں نےکہاکہ کام ہے نہ کوئی کاروبار
اس نے کہا کہ شاعری پر اکتفا کرو

میں نےکہاکہ سو کی بھی گنتی نہیں ہے یاد
اس نے کہا کہ رات کو تارے گنا کرو

میں نےکہاکہ ہے مجھے کرسی کی آرزو
اس نے کہا کہ آیت کرسی پڑھا کرو

میں نےکہا غزل پڑھی جاتی نہیں صحیح
اس نے کہا کہ پہلے ریہرسل کیا کرو

میں نےکہاکہ کیسے کہی جاتی ہے غزل
اس نے کہا کہ میری غزل گا دیا کرو

ہر بات پر جو کہتا رہا میں بجا بجا
اس نے کہا کہ یوں ہی مسلسل بجا کرو

دلاور فگار

کچھ نمک پارے مزید

سیب سے گال ہیں، خوبانی کے جیسی تھوڑی
شربتی آنکھیں بھی چہرے پہ بڑی پیاری ہیں
ساری چیزیں اگر ایسی ہیں تو تقصیر معاف
وہ تو پھر آپ کی بیگم نہیں افطاری ہیں

عنایت علی خان




اقبالِ جرم

شوق سے لختِ جگر، نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو ! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
ڈاکٹر اقبال کا شاہیں تو ہم سے اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں