غزل
زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اُڑان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں جل کر بھی کیا ملا تجھ کو
اُسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا
بُھلا دیا تو بُھلانے کی انتہا کردی
وہ شخص اب مرے وہم و گمان سے بھی گیا
کسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
حدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا
شاہد کبیر
جواب دیںحذف کریںپرائی آگ میں جل کر بھی کیا ملا تجھ کو
اُسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا
ریختہ پہ یہ شعر اِس طرح درج ہے
پرائی آگ میں کودا تو کیا ملا شاہدؔ
اُسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا
منفرد مضامین کی حامل بہترین غزل
جواب دیںحذف کریںکچھ اشعار تو زبان زدِ عام ہیں۔
بارہا پڑھی ہوئی۔۔۔ اس غزل کے اشعار بہت ظالم ہین۔۔ مجھے بےحد پسند ہے۔ بہت شکریہ احمد بھائی
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ بلال !
جواب دیںحذف کریںہم نے شاید کسی رسالے سے لی تھی یہ غزل۔ لیکن اب یاد نہیں آ رہا ہے۔
بہت شکریہ ذوالقرنین بھائی!
جواب دیںحذف کریںآپ کے تبصروں سے لگتا ہے کہ ہفتہ غزل کی سرگرمی بالکل بے سود نہیں رہی۔ :)
کیا خوب غزل ہے، واہ
جواب دیںحذف کریں