اَک برہمن نے کہا ہے ۔ صابر دت


اک برہمن نے کہا ہے۔۔۔

اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ظلم کی رات بہت جلد ڈھلے گی اب تو
آگ چولہوں میں ہر اِک روز جلے گی اب تو

بھوک کے مارے کوئی بچہ نہیں روئے گا
چین کی نیند ہر اِک شخص یہاں سوئے گا

آندھی نفرت کی چلے گی نہ کہیں اب کے برس 
پیار کی فصل اُگائے گی زمیں اب کے برس

ہے یقیں اب نہ کوئی شور شرابا ہوگا
ظُلم ہوگا نہ کہیں خون خراب ہوگا

اوس اور دھوپ کے صدمے نہ سہے گا کوئی
اب میرے دیس میں بے گھر نہ رہے گا کوئی

نئے وعدوں کا جو ڈالا ہے وہ جال اچھا ہے
رہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

صابر دتؔ


غزل ۔ بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ ۔ محمد احمدؔ

غزل

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹھہرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ


یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ
محمد احمدؔ