غزل
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
ہم اِک ایسے زمانے میں بھی گزرے ہیں یہاں سے
یہ گھر ہوتے تھے لیکن یہ گلی ہوتی نہیں تھی
دیا پہنچا نہیں تھا، آگ پہنچی تھی گھروں تک
پھر ایسی آگ، جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
نکل جاتے تھے سر پر بے سر و سامانی لادے
بھری لگتی تھی گٹھری اور بھری ہوتی نہیں تھی
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اِتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
پرانے حیرتی تھے اور زمانوں سے وہیں تھے
پرانی خامشی تھی اور نئی ہوتی نہیں تھی
ہمیں جا جا کہ کہنا پڑتا تھا، ہم ہیں ، یہیں ہیں
کہ جب موجودگی ، موجودگی ہوتی نہیں تھی
بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے
جو شے درکار ہوتی تھی، وہی ہوتی نہیں تھی
شاہین عباس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں