غزل
ہر اک سیلِ بلا، ایک اک شناور سامنے ہے
کنارے ہوں مگر سارا سمندر سامنے ہے
اک آئینہ اور اتنے مسخ چہرے اور بہ یک وقت
بجھی جاتی ہیں آنکھیں اب وہ منظر سامنے ہے
نہیں معلوم اب اس خواب کی تعبیر کیا ہو
میں نرغے میں ہوں اور جلتا ہوا گھر سامنے ہے
سوالِ حرمتِ میزانِ بے توقیر کے بعد
جو زیرِ آستیں تھا اب وہ خنجر سامنے ہے
ابھی جو اہتمامِ جشنِ فردا میں مگن تھی
وہی خلقِ خدا حیران و ششدر سامنے ہے
افتخار عارف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں