ایک گدھابہت آرام و اطمینان کے ساتھ ایک سبزہ زار میں گھاس چر رہا تھا۔ اچانک اُسے دور جھاڑیوں میں کسی بھیڑیئے کی موجودگی کا شائبہ گزرا ، لیکن یہ گمان ایک لحظہ بھر کے لئے بھی نہ تھا ، گدھے نے اسے اپنا وہم قیاس کیا اور پھر سے ہری ہری گھاس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اُسے کچھ دور جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی وہ ایک لمحے کے لئے چونکا پھر اپنے وہم پر مسکرا دیا اور اطمینان سے گھاس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ زرا توقف کے بعد اُسے پھر سے جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی بلکہ اب تو اُسے بھیڑیا نظر بھی آگیا لیکن اُسے اب بھی یقین نہیں آیا اور خود کو وہمی اور شکی ہونے پر ملامت کرنے لگا اور گھاس چرتا رہا۔ گدھا وہم و یقین کی اسی کشمکش میں مبتلا رہا اُس نے کئی بار بھیڑیئے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھا لیکن ہر بار اسے اپنا وہم خیال کیا حتی کہ بھیڑیے نے گدھے پر حملہ کردیا اور چیر پھاڑ کر نے لگا تو گدھا چیخ کر بولا" بھیڑیا ہی ہے ! بھیڑیا ہی ہے"، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
آپ میں سے بہت سوں نے یہ کہانی ضرور سُنی ہوگی اور جنہوں نے نہیں سُنی وہ بھی اب تک اس سے ملتی جلتی کہانیوں کے عادی ضرور ہو گئے ہوں گے۔ ہمارے اربابِ اختیار کے وہ بیانات اب ہمارے روز مرہ میں شامل ہو گئے ہیں جن میں سامنے کے واقعات پر انجان بن کر تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جاتی ہے، ایسی کمیٹی جس کی رپورٹ طلب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
جس زمانے میں امریکہ اور اُس کے حواریوں نے پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کئے تھے اُس وقت بھی ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا جاتا تھا جو یقین سے زیادہ گمان پر دلالت کرتی ۔ کبھی امریکی حملوں کو حکومت اپنی کاروائی بتاتی تو کبھی بوکھلاہٹ میں ملکی سالمیت اور خود مختار ی پر بیانات داغے جاتے۔ اس قسم کے بیانات دینے والوں کے نزدیک ملکی سالمیت اور خود مختاری کیا معنی رکھتی ہے اس کا اندازہ اُن کے انداز سے بخوبی ہو ہی جاتا ہے۔ یہاں "بھیڑیئے" کی موجودگی کا علم تو سب کو ہی تھا لیکن اس سلسلے میں جس "تجاہل ِ عارفانہ "سے کام لیا جاتا رہا اُس کا واقعی کوئی جواب نہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب بھیڑیا دور جھاڑیوں میں تھا اور لیکن پھر ایک وقت وہ آیا کہ ڈرون حملے معمول کا حصہ بن گئے ۔ یعنی اب ڈرون حملے ملکی سلامتی اور خود مختاری کے لئے خطرہ نہیں رہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ نیوز چینل کچھ کھلے اور کچھ دبے انداز میں ڈرون حملوں کی رپورٹنگ کرتے رہے لیکن گھسے پٹے بیانات سے جان البتہ چھوٹ گئی۔
اب پھر سے ہمارے صدر اور وزیرِ اعظم نیٹو فورسز کی پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی بلکہ پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے پر بھی کچھ ایسی ہی تشویش ظاہر کر رہے ہیں جو گدھے کو بھیڑیئے کی جانب سے رہی۔ تشویش اور تحقیقات کا حکم ! ایسی تحقیقات جن کی رپورٹ طلب کرنے والا کوئی نہیں۔
نہ جانے ایسا کب تک چلتا رہے گا اور نہ جانے ایسے کب تک چل سکے گا، کیونکہ ہمارا حال سب کے سامنے عیاں ہے اور ایسے حال والوں کے انجام کی پیش گوئی اقبال کے اس شعرسے بہتر کون کرسکتا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اس ضعف اور کمزوری کا سدِ باب کرنے والا تو فی الحال کوئی نظر نہیں آتا لیکن اگر اس کے سدِّ باب کی کوشش نہیں کی گئی تو انجام بھی منطقی ہی ہوگا جس پر کسی کو شکایت نہیں ہوئی چاہیے۔
یارو مجھے معاف کرو
جواب دیںحذف کریںمیں مزے میں ہوں
جو کمزوری کا سدباب کر رہے ہیں۔انہیں طعنہ دیا جاتا ھے۔کہ چودہ پندرہ سو سال پہلے کے دور میں جی رھے ہیں۔چلیں ہمیں بھی معاف کریں۔
جواب دیںحذف کریںلگتا ہے آج کل معافی تلافی کا موسم چل رہا ہے لیکن یاد رہے کہ معافی تو کسی کو نہیں مل سکتی ہاں البتہ تلافی اگر کوئی کرنا چاہے تو سو بسم اللہ!
جواب دیںحذف کریں۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جواب دیںحذف کریںبہت خوب، واقعی یہ مسئلہ ختم نبوت پربھی ہورہاہےدراصل غیرمسلم ہم سےآخری چیزمحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہےوہ بھی چھیننہ چاہتاہےباربارحملےکررہاہےلیکن ہم احتجاج کےسواکچھ بھی نہیں کرسکتےبلکہ سفارتی طورپرکچھ کیاکرناہےاپرلیول توویسےہی خاموش ہوگیاہےیہ بیچارےجلے ہوئےلوگ ہیں کیونکہ ہرطرف سےمرےہوئےہیں لیکن الحمداللہ محبت رسول آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالی سےدعاہےکہ محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحیح تعلیمات کاپابندبنائے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
جاوید اقبال صاحب،
جواب دیںحذف کریںبس کیا کیجے آج کل لوگ اپنا مسلمان ہونا بھی باعثِ ننگ سمجھتے ہیں صرف اُن لوگوں کی وجہ سے جن کا کوئی بھی عمل اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا، ہم کیوں شرمندہ ہیں ۔ ہم اس لئے شرمندہ ہیں کہ ہم اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں پھر اسلامی افکار کی ترویج اور دفاع کیسے ممکن ہے۔
صاحب آپ تو بنے بنائے جاوید چوہدری ہیں
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںآپ نے بالکل درست لکھا احمد! گدھے نے تو پھر بھی عین آخری وقت پر بھیڑیے کو پہچان لیا تھا ہم لوگ تو یہ بھی نہیں کر رہے۔ اب تو نوبت 24 گھنٹوں میں تین تین ڈرون حملوں تک پہنچ گئی ہے۔ آج شمالی وزیرستان میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران تیسرا حملہ ہوا ہے۔ اور نیرو بانسری بجائے چلا جا رہا ہے۔
شکریہ جواد صاحب،
جواب دیںحذف کریںچونکہ اس تحریر کی ابتدا ایک قصے سے ہوئی ہے شاید اسی لئے آپ کو اس میں جاوید چوہدری صاحب کی جھلک نظر آئی-
بہر کیف توجہ اور تبصرے کا شکریہ!
ٹھیک کہا فرحت صاحبہ آپ نے یہاں ہر صاحبِ اقتدار نیرو کا کردار ہی کر رہا ہے۔ اب تو میڈیا ہر ہر بات کو بے نقاب کر رہا ہے لیکن بے غیرتی اور بے ضمیری بھی اس بار ریکارڈ توڑنے پر تلی نظر آتی ہے۔
جواب دیںحذف کریں