غزل
شب ِ تاریک میں لرزا ں شرار ِ زندگانی ہے
ترے غم کی رفاقت سے یہ عمر ِجاودانی ہے
مرا پیہم تبسم ہی مرے غم کی نشانی ہے
مرا دھیما تکلّم ہی مری شعلہ بیانی ہے
فقیہِ شہر کا اب یہ وظیفہ رہ گیا باقی،
امیر ِ شہر کی دہلیز پہ بس دُم ہلانی ہے
کوئی زنداں میں جب بھی نو گرفتارِ وفا آیا
مجھے ایسا لگا جیسے یہ میری ہی کہانی ہے
فغاں ہے خام تیری گر تجھے سودا ہے جلووں کا
کہ تو ناواقفِ رمزِ ِ ندائے لن ترانی ہے
سیاہی سے ترے گیسو کی پانی ہیں گھٹائیں بھی
زمیں کے آگے شرمندہ بلائے آسمانی ہے
سید عاطف علی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں