غزل
ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
سرور و کیف میں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں
گنا کرو نہ پیالے ہمیں پلاتے وقت
ظروف ظرف کے پیمانے تھوڑی ہوتے ہیں
براہِ راست اثر ڈالتے ہیں سچے لوگ
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں
جو لوگ آتے ہیں ملنے ترے حوالے سے
نئے تو ہوتے ہیں، انجانے تھوڑی ہوتے ہیں
ہمیشہ ہاتھ میں رہتے ہیں پھول اُن کے لئے
کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں
کسی غریب کو زخمی کرے کہ قتل کرے
نگاہِ ناز کو جُرمانے تھوڑی ہوتے ہیں
شعورؔ تم نے خدا جانے کیا کیا ہوگا
ذرا سی بات کے افسانے تھوڑی ہوتے ہیں
انور شعورؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں