غزل ۔ بہہ نہ جانا کہیں بہاؤ میں ۔ محمد احمد

غزل

بہہ نہ جانا کہیں بہاؤ میں
رکھنا پتوار اپنی ناؤ میں

نا اُمیدی مرے مسیحا کی
عمر کاٹی ہے چل چلاؤ میں

عصرِ تازہ کا ترجماں ہے وہ
واہ مضمر ہے اُس کی واؤ میں

چارہ گر! ہے یہ اعتبار کا زخم
تیر گننا عبث ہے گھاؤ میں

دوستوں کو خبر نہ ہو پائی
رہ گیا میں کسی پڑاؤ میں

مسکراتے رہا کرو احمدؔ
رکھ رکھاؤ ہے، رکھ رکھاؤ میں

محمد احمدؔ

نو برس - ایک نثری نظم

 آج ہم نے اپنے عزیز دوست اور اُستاد فلک شیر بھائی کی ایک نثری نظم دیکھی جو ہمیں بہت بھائی! سو ہم کمالِ اپنائیت سے یہ نظم بغیر اجازت اپنے بلاگ پر چسپاں کر رہے ہیں۔ آپ کو ضرور پسند آئے گی۔

نو برس

نو برس ہوتے ہیں
ہر کسی کے اپنے نو برس ہوتے ہیں
سیرِ صحرا سے لبِ دریا تک
عمر کوٹ سے بھٹ جو گوٹھ تک
سسی کی پیاس سے خضر کے گھڑے تک
بے انت بے سمتی سے یکسوئی کی مٹھاس تک
کانٹوں کے عرق سے ترتراتے پراٹھےسے....
شکرگزاری کی سوکھی روٹی تک
بے مصرف بنجر دنوں سے موتیوں جیسے لمحوں کے ڈھیر تک
واقف انجانوں کی بھیڑ سے دل میں اترے اجنبیوں کی مجلس تک

اور

کسی بربادکوزہ گر، جو اپنے ہی کوزوں سے رنجور ہو....
کوپھر سے اپنے چاک پہ شرابور ہونے تک
نو برس درکار ہوتے ہیں
پر یہ نو برس ہمیشہ سو سے آٹھ زیادہ مہینوں کے نہیں ہوتے
یہ نو لمحوں سے نو دہائیوں کے ہو سکتے ہیں

کیونکہ

نو برس ہر کسی کے اپنے ہوتے ہیں


فلک شیر



عرضِ شاعرمن و عن: کل ن م راشد کا یوم پیدائش تھا، راشد کی حسن کوزہ گر کا ایک تھیمیٹک حوالہ مندرجہ بالا نثری نظم میں قارئین محسوس کر سکتے ہیں، یہ تککفاً در نہیں آیا، یہی عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں۔

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے ۔ راجیندر کرشن

یوں تو یہ ایک گیت ہے جو شاید آپ میں سے کسی نے لتا کی آواز میں سنا ہو۔ لیکن ہیئت کے اعتبار سے یہ ایک غزل ہے اور کیا ہی خوب غزل ہے۔ آج فیس بک پر اسے دیکھا تو سوچا کہ اس خوبصورت کلام کو بلاگ پر لگایا جائے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے

گھر سے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش میں
غم راہ میں کھڑے تھے وہی ساتھ ہو لیے

مرجھا چکا ہے پھر بھی یہ دل پھول ہی تو ہے
اب آپ کی خوشی اسے کانٹوں میں تولیے

ہونٹوں کو سی چکے تو زمانے نے یہ کہا
یوں چپ سی کیوں لگی ہے اجی کچھ تو بولئے

راجیندر کرشن


تبصرہ ٴکُتب | کبڑا عاشق ۔ وکٹر ہیوگو


مجھے تراجم پڑھنا اس لئے اچھا لگتا ہے کہ عموماً شاہکار کتابیں ہی ذہن میں یہ خیال پیدا کرتی ہیں کہ انہیں دوسری زبان کے جاننے والوں کے لئے بھی پیش کیا جائے۔ ورنہ ہر کتاب کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ اور اکثر تراجم جو میں نے پڑھے ہیں وہ واقعتاً اپنی صنف کی شاہکار کتابیں ہیں۔

وکٹر ہیوگو کا مشہور ناول نوٹرے ڈیم کا کبڑا کا اردو ترجمہ کبڑا عاشق کے نام سے کیا گیا ہے ۔ فکشن ہاؤس نے اسے چھاپا ہے لیکن کہیں بھی مترجم کا ذکر نہیں کیا۔ ویب سرچ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ناول کا ترجمہ ستار طاہر صاحب نے کیا ہے۔ بدگمانی سے کام لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ غالباً ستار طاہر کے کام کو ہی فکشن ہاؤس نے بغیر کریڈٹ دئیے اپنے پلیٹ فارم سے شائع کر دیا۔ واللہ اعلم!

بہر کیف، ناول کا پلاٹ اچھا ہے۔ پس منظر میں مصنف نے مذکورہ دور کے پیرس کا حال بھی پیش کیا ہے کہ کس طرح پیرس اُس وقت ظلم و جہالت کا شکار تھا اور وہاں کے عوام کی نفسیات کیا تھیں۔ سماج اور انصاف کی کون سی قدریں وہاں رائج تھیں۔

ناول میں بین السطور کئی ایک سماجی مسائل زیرِ بحث آئے ہیں کہ جن میں سے کچھ مسائل کا ہمیں آج بھی سامنا ہے۔ ناول کے ایک واقعہ کو پڑھ کر گلزار کا مشہور افسانہ "ادھا" یاد آتا ہے کہ جس کی تھیم یہ تھی کہ برے وقت میں ایک ایسا شخص کام آتا ہے کہ جس سے بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

بہرکیف، وقت گزاری کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔





استخارہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟


مسلمانوں کو چاہیے کہ کسی بھی اہم فیصلے سے پیشتر استخارہ کریں۔ استخارہ کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ کسی معاملے میں اللہ تعالى سے دعا کی جائے کہ وہ ہمیں بہتر راہ یا فیصلہ نصیب کردے۔ یعنی اللہ تعالىٰ كے ہاں جو کام یا امر ہمارے لئے بہتر و افضل ہے ہمیں اس كى طرف پھیر دے اور اس کے لئے راہ ہموار کردے۔


 
استخارہ کے درست طریقے سے بہت سے لوگ واقف نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ استخارہ کے حوالے سے کئی ایک غلط فہمیاں لوگوں میں عام ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے محترم دوست جناب ظہیر احمد ظہیر صاحب نے ایک مختصر مضمون "استخار ہ کیا ہے؟ اور کیا نہیں ہے؟" تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون آپ اس ربط پر ملاحظہ کر سکتے ہیں یا اسے براہِ راست پڑھنے کے لئے ڈاؤنلوڈ بھی کر سکتے ہیں۔

جزاک اللہ۔


تبصرہ ٴکُتب | جب زندگی شروع ہوگی


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول ہے۔ اگر آپ نے یہ ناول نہیں پڑھا تو میری رائے یہ ہے کہ آپ بغیر کوئی اثر لئے اس ناول کو پڑھیے۔ بعد میں چاہیں تو یہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس ناول کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں تو پھر ہمارا تبصرہ حاضر ہے۔

کراچی ایکسپو سینٹر میں ہر سال کتابوں کی نمائش منعقد ہوا کرتی ہے اور ہم کم از کم ایک بار تو وہاں حاضری دے ہی دیتے ہیں۔ "جب زندگی شروع ہوگی" کا پہلا دیدار ہمیں کراچی ایکسپو سینٹر میں ایسی ہی ایک نمائش میں ہوا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہال کے داخلی دروازے پر دو تین لوگ اس کتاب کا ایک ایک نسخہ لیے ہر آنے جانے والے کو گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر ایک کو روک کر کہتے ہیں،کیا آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے؟

میری طبیعت کچھ ایسی ہے کہ میں اُن چیزوں سے کافی بیزار ہو جاتا ہوں جن کی بہت زیادہ مارکیٹنگ ہوتی نظر آتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ بھلا کوئی مجھ پر کوئی شے کیوں مسلط کرے۔ سو اپنی طبیعت کے باعث میں ہمشہ اس گروہ سے بچ کر نکل جاتا۔ پھر اُس کے بعد کہیں نہ کہیں اس کتاب کا دیدار ہوتا رہا کہ اکثر کتابوں کی دوکان پر یہ کافی نمایاں مقامات پر رکھی نظر آتی۔ اور میں اپنا پہلا تاثُّر لیے اسے نظر انداز کر دیتا۔

پھر ایک بار ہمارے ایک شفیق اُستاد نے ہم سے اس کتاب کا ذکر کیا اور بین السطور اس کی تعریف بھی کی۔ تب کہیں جا کر ہم نے اس کتاب کو فہرستِ مطالعہ میں جگہ دی۔ اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان دنوں ہم نے یہ کتاب پڑھ بھی لی۔


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول یعنی فکشن ہے۔ لیکن یہ عام فکشن نہیں ہے۔ دراصل مصنف نے اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی اُخروی زندگی کو ایک ناول کی صورت پیش کیا ہے۔ اس ناول کا آغاز ہی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے ہوتا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار عبداللہ نامی شخص ہے اور ناول کے تمام تر واقعات عبداللہ ہی کی زبانی بیان ہوئے ہیں۔ ناول میں حشر کے طویل ترین دن کا بیان ہے کہ کس طرح کے اعمال والوں کے ساتھ اُس دن کیا سلوک ہونا ہے۔ حشر کے دن کی سختیاں اور ہولناکیاں اس میں بتائی گئی ہیں ۔ حساب کتاب کیا ہوگا، کس طرح ہو گا۔حشر کا دن، اللہ کے انسانوں سے کئے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا دن، کیسا ہوگا۔ جس نے اللہ کے وعدوں کو سچ سمجھا، اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اور جس نے اللہ کے وعدوں اور وعید وں کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیاوی زندگی کو ہی سب کو کچھ سمجھ لیا، اُس کے ساتھ کیا ہوگا۔ پھر جنت اور جہنم کا بیان۔ جنت کے حسن و جمال اور عیش و آرام والی زندگی کا بیان اور جہنم کے بدترین حالات اور اہلِ جہنم کی مصیبتوں کا احوال اس تحریر میں موجود ہے۔ ساتھ ساتھ بین السطور اس بات کا بیان کہ کس طرح کی زندگی گزارنے والے کی آخرت کیسی ہوگی۔ اعمال کا وزن کس طرح ہوگا۔ نیّتوں کا کیا دخل ہوگا ، اور اللہ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بیان۔ غرض کہ ایک کوزے میں سمندر کو بند کر دیا گیا ہے اور وہ بھی دلچسپ کہانی کے پیرائے میں۔

گو کہ مسلمان یہ سب وعدے وعید کہیں نہ کہیں پڑھتا سنتا رہتا ہے لیکن یہ سب چیزیں اکثر کسی ایک جگہ نہیں ملتیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ کہانی کی شکل میں چیزوں سے زیادہ اثر لیتا ہے سو یہ ناول ہم سب کو پڑھنا چاہیے۔

اس ناول پر کچھ لوگوں کو اعتراضات بھی ہیں ۔ اور اعتراضات کا ہونا بعید از قیاس ہرگز نہیں ہے کہ ان سنجیدہ موضوعات کو کہانی کی شکل دینے میں کئی ایک قباحتیں درپیش ہو سکتی ہیں۔ تاہم مصنف کا کہنا یہ ہے کہ اُس ناول میں تمام تر مندرجات اور واقعات نگاری کے لئے اُنہوں نے اسلامی تعلیمات کے اہم ترین ماخذ قران اور صحیح احادیث سے استنباط کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے آپ کو کئی ایک احادیثِ مبارکہ اور قرانی آیات یاد آئیں گی جو اس بات کی دلالت ہے کہ یہ محض ایک فکشن نہیں ہے بلکہ مصنف نے اس کے مندرجات کی تحقیق میں کافی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔

ناول کے بارے میں مصنف نے کچھ وضاحتیں آغاز میں اور کچھ ناول کے انجام پر پیش کی ہیں جس سے عمومی شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

شرعی اعتبار سے اس قسم کے ناول کی کیا حیثیت ہے میں اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں ۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ ناول بڑی تاثیر رکھتا ہے اور پڑھنے والے کو خدا سے قریب کرتا ہے اور فکرِ آخرت کو مہمیز کرتا ہے۔

یہ اُن تمام تحریروں سے کہیں بہتر ہے کہ جو ہمیں فکشن کو حقیقت بنا کر سُناتی ہیں اور اس پر یقین کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہیں، اور ہم میں سے بہت سے سادہ لوح اُن پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔ تاہم یہ ناول ہے اور مصنف نے اسے بطورِ فکشن ہی پیش کیا ہے۔

اگر آپ اس ناول کی صنف کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں تو میرے نزدیک اس کی مثال بچوں کی کہانیوں کی سی ہے کہ جو ہوتی تو فکشن ہی ہیں لیکن اُن میں دیا گیا اخلاقی سبق بالکل سچ ہوتا ہے ۔ شاید آپ نے بچپن میں اُس لکڑ ہارے کی کہانی سنی ہو کہ جس کی کلہاڑی دریا میں گر گئی اور ایک جل پری نے اُسے ایک چاندی کی کلہاڑی دکھائی کہ شاید یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔ جس پر لکڑہارے نے منع کر دیا کہ یہ اُس کی کلہاڑی نہیں ہے۔ اُس کے بعد جل پری نے اُسے سونے کی کلہاڑی دکھائی اور اس بار بھی لکڑہارے نے انکار کر دیا ۔ اور جب تیسری بار جل پری نے اُسے اُس کی اپنی لوہے کی کلہاڑی دکھائی تو لکڑہارے نے کہا کہ ہاں یہی میری کلہاڑی ہے ۔ اور اس کے بعد اُس کی ایمانداری کے انعام کے طور پر جل پری نے اُسے سونے اور چاندی کی کلہاڑیاں بھی بطور تحفہ دے دیں۔ اب دیکھا جائے تو یہ خالص فکشن ہے لیکن ایمانداری کا سبق اپنی جگہ مسلم ہے اور ہماری توقع ہوتی ہے کہ بچے اس قسم کی کہانیاں سن کر ایمانداری سیکھیں۔

بہرکیف ایک کتاب کے تبصرے کی مد میں اتنا کہنا کافی ہے۔ آپ اپنی رائے کتاب پڑھ کر قائم کر سکتے ہیں۔ آخر میں ایک مشورہ ہماری طرف سے یہ ہے کہ اگر اس کتاب میں پیش کیے جانے والا کوئی خیال یا تصور آپ کے لئے نیا ہو یا چونکا دینے والا ہو تو اِ سے ایک دم قبول یا رد نہ کریں بلکہ تھوڑی سی تحقیق کریں جس سے آپ کی بھرپور تشفی ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ہدایت عطاء فرمائے اور دُنیا میں اور بالخصوص آخرت میں کامیابی سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔

پش نوشت: اگر آپ یہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کو با آسانی بک اسٹال سے مل جائے گی اور اگر آپ اس کی پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو اس ربط سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔

******


نظم : ڈیجیٹل فوٹو


زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں


نوید رزاق بٹ

 


 

فاطمہ حسن کی دو خوبصورت غزلیں

غزل

زمیں سے رشتۂ دیوار و در بھی رکھنا ہے
سنوارنے کے لیے اپنا گھر بھی رکھنا ہے

ہوا سے آگ سے پانی سے متصل رہ کر
انہیں سے اپنی تباہی کا ڈر بھی رکھنا ہے

مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے

یہ کیا سفر کے لیے ہجرتیں جواز بنیں
جو واپسی کا ہو ایسا سفر بھی رکھنا ہے

ہماری نسل سنورتی ہے دیکھ کر ہم کو
سو اپنے آپ کو شفاف تر بھی رکھنا ہے

ہوا کے رخ کو بدلنا اگر نہیں ممکن
ہوا کی زد پہ سفر کا ہنر بھی رکھنا ہے

نشان راہ سے بڑھ کر ہیں خواب منزل کے
انہیں بچانا ہے اور راہ پر بھی رکھنا ہے

جواز کچھ بھی ہو اتنا تو سب ہی جانتے ہیں
سفر کے ساتھ جواز سفر بھی رکھنا ہے

****
 

کہو تو نام میں دے دوں اسے محبت کا
جو اک الاؤ ہے جلتی ہوئی رفاقت کا

جسے بھی دیکھو چلا جا رہا ہے تیزی سے
اگرچہ کام یہاں کچھ نہیں ہے عجلت کا

دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

یقین کرنے لگے لوگ رت بدلتی ہے
مگر یہ سچ بھی کرشمہ نہ ہو خطابت کا

سنوارتی رہی گھر کو مگر یہ بھول گئی
کہ مختصر ہے یہ عرصہ یہاں سکونت کا

چلو کہ اس میں بھی اک آدھ کام کر ڈالیں
جو مل گیا ہے یہ لمحہ ذرا سی مہلت کا

فاطمہ حسن


اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا

یہ کلام ہم نے آج فیس بک کے ایک ادبی گروپ پر پڑھا۔ اچھا لگا سو بعد از تحسینِ کلام ہم اس کلام کو نقل کر کے یہاں لے آئے تاکہ قارئینِ رعنائیِ خیال بھی اس سے محظوظ ہو سکیں۔ 

اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا
عربی نے اس کو خاص ترابی بنا دیا

اہلِ زباں نے اس کو بنایا بہت ثقیل
پنجابیوں نے اس کو گلابی بنا دیا

دہلی کا اس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک
اور لکھنئو نے اس کو نوابی بنا دیا

بخشی ہے کچھ کرختگی اس کو پٹھان نے
اس حسنِ بھوربن کو صوابی بنا دیا

باتوں میں اس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب
یوں ترکیوں نے اس کو جوابی بنا دیا

قسمت کی بات آئی جو تو رانیوں کے ہاتھ
سب کی نظر میں اس کو خرابی بنا دیا

حرفِ تہجی ساری زبانوں کے ڈال کر
اردو کو سب زبانوں کی چابی بنا دیا

ہم اور ارتقاء اسے دیتے بھی کیا معین
اتنا بہت ہے اس کو نصابی بنادیا

سید معین اختر نقوی


منقول از ادبیات - فیس بک

نظم: وہیں تو عشق رہتا ہے ۔۔۔ از ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیر

 
ظہیر احمد ظہیر بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ لیکن قادر الکلام شاعر کے لئے کسی بھی صنف میں کوئی بھی خیال نظم کرنا دشوار نہیں ہوتا۔ یوں بھی جو شعراء کبھی کبھی نظم کہتے ہیں اُن کی نظمیں اکثر بہت خوب ہوتی ہیں۔ ظہیر احمد ظہیر صاحب کی یہ نظم اس بات پر مزید دلالت کرتی ہے۔ یہ نظم رومانوی مزاج رکھتی ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ کو کم از کم تخیلاتی سطح پر رومانی فضا کی ضرورت ہے۔

 

وہیں تو عشق رہتا ہے


جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں غم گیت گاتے ہیں ، جہاں ہر درد ہنستا ہے
وہیں ہے گھر محبت کا ، وہیں تو عشق رہتا ہے
جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے
سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے
ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے کر
شفق کی زرد تختی پر گلابی شام لکھتی ہے
جہاں اقرار وپیماں کے گھنے شیشم تلے سورج
نئے اک دن کی خاطر تیرگی کے وار سہتا ہے
جہاں اک آس کی خوشبو میں لپٹا یاس کا سایہ
کسی کی نظم لکھتا ہے ، کسی کے شعر کہتا ہے

اداسی جب کبھی دل پر کمندیں ڈال دیتی ہے
تھکن جب دھڑکنوں میں نا امیدی گھول دیتی ہے
تو اُس لمحے دبے پاؤں کسی احساس کا پیکر
قریب آکر بجھی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے سے
دبی سرگوشیوں کے نرمگیں لہجے میں کہتا ہے
" یہ غم میری امانت ہے ، تم اِس سے ہار مت جانا
تمہیں میری قسم دیکھو کبھی اُس پار مت جانا
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں کوئی نہیں بستا ، جہاں کوئی نہیں رہتا"

پلٹ کر دیکھئے اُس پل تو کوئی بھی نہیں ہوتا
بس اک موہوم سی آہٹ اور اک مانوس سی خوشبو
فضا میں جیسے بکھری ہو ، ہوا جیسے مہکتی ہو
تبسم کی چنبیلی اور ترنم کے گلابوں سے
ڈھکے ٹیلوں کے دامن میں ، ذرا سی دور خوابوں سے
منقش جھلملاتی یاد کی پگھلی ہوئی چاندی
کا اک آئینہ بہتا ہے
وہیں تو گھر ہمارا ہے ، وہیں تو عشق رہتا ہے
وہیں تو عشق رہتا ہے



ظہیؔر احمد

 


 

تبصرہ ٴکُتب | پیاری زمین - پرل بک / اختر حسین رائے پوری


'پیاری زمین' مشہور امریکی مصنفہ مسز پرل بک کے ناول گُڈ ارتھ (Good Earth) کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مصنفہ کو نوبل پرائز دیا گیا اور یہ ناول بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مصنفہ ایک امریکی خاتون ہیں لیکن اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزرا اور اس ناول کے کردار و واقعات بھی چینی دیہاتی زندگی کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ مصنفہ پرل بک 1892ء میں پیدا ہوئیں اور 1934ءتک زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزارا۔ اسی اثناء میں انہوں نے بیسوی صدی کے چین کی دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ہی یہ ناول رقم کیا۔


کتاب میں کل 476 صفحات ہیں ۔ جس میں سے 28 صفحات تعارف پر مبنی ہیں ۔ جس میں چین کے اس دور کے حالات ذکر ہیں کہ جب ناول نگاری کو مشاہیرِ ادب حقیر جانتے تھے اور اسے کسی بھی طرح ادبِ عالیہ کا درجہ دینے پر راضی نہیں تھے۔ تعارف میں مزید یہ بھی بتایا گیا کہ چین میں ناول نگاری کا ارتقاء کس طرح ہوا۔ چین کی عوام میں قصہ کہانیوں کا رواج بہت عام تھا ۔ یہی قصہ کہانیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے ناولز کا روپ دھار گئیں ۔

گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے شائع کیا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری پاکستان کے نامور ترقی پسند نقاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار اور مترجم تھے ۔

ڈاکٹر صاحب نے ناول کا ترجمہ بہت احسن طریقے سے کیا ہے اور بامحاورہ ،شستہ و نستعلیق اردو سے مزین یہ ناول کسی بھی طرح اردو دان طبقے کے لئے اجنبی معلوم نہیں ہوتا۔

میرے جیسے قاری کے لئے کہ جو عدیم الفرصتی اور سہل پسندی کے باعث سب سے پہلے کسی بھی کتاب کے صفحات گنا کرتا ہے ، چار ساڑھے چار سو صفحات کا ناول پڑھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ تاہم ناول اس قدر رواں ہے کہ قاری کو ہرگز گراں نہیں گزرتا۔ حالات و واقعات اس طرح باہم پیوست ہیں کہ قاری کہانی کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کہانی انجام تک اُسے اپنے ساتھ ساتھ چلاتی ہے ۔

ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو قریب سے دکھایا گیا ہے جس نے انتہائی غربت میں اپنے کام کا آغاز کیا اور ایک باندی سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد مستقل محنت سے اپنی زمینوں میں اضافہ کرتا گیا۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمیندار بنتا گیا۔ناول بار بار یہ باور کرواتا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے اور وہ لوٹ پھیر کر اپنی زمین کی طرف ہی آتا ہے۔

ناول کا سب سے اہم حصہ وہ ہے کہ جس میں تاریخی قحط کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوئے ۔ یہاں تک کے اُنہیں بھیک مانگ کر بھی گزارا کرنا پڑا۔ قحط کی ہولناکی سمجھنا آج کے انسان کے لئے دشوار ہے ۔ وہ اس بات کا ٹھیک طرح ادراک نہیں کر سکتا کہ کس طرح اناج کے چند دانے انسان کے لئے ہر چیز اور ہر رشتے سے زیادہ مقدم ہو سکتے ہیں۔

کسان وانگ لنگ نے عروج و زوال کے کئی ایک زمانے دیکھے اور آخر کار وہ ایک بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ ناول ہمہ وقت کئی ایک ذیلی موضوعات میں بھی گھرا رہتا ہے کہ جن میں انسانی فطرت، غربت کے مسائل، امارت کے ساتھ در آنے والی خرابیاں شامل ہیں ۔ مزید براں اس ناول کی کہانی انسانی زندگی کی ذاتی اور سماجی نفسیات سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آتی ہے۔

یہ ناول پڑھ کر آپ یہ تو شاید نہ کہیں کہ یہ آپ کے پڑھے ہوئے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک یادگار ناول ہے۔ اور اردو دان طبقے کے لئے اس میں مصنفہ کے ساتھ ساتھ مترجم کی محنت بھی شامل ہے۔

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے ۔ جمال احسانی

غزل

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

جمال احسانی

 

 انور مقصود، افتخار عارف اور جمال احسانی ۔ دائیں سے بائیں

تبصرہ ٴکُتب | سرگزشت از سید ذوالفقار علی بخاری

سرگزشت

سید ذوالفقار علی بخاری
 
23 مارچ 2020ء کو سندھ حکومت نے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھیں تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے ۔ آج اپریل کی چار تاریخ ہے اور تا حال لاک ڈاؤن جاری ہے ۔

نہ جانے اس لاک ڈاؤن سے کتنے فائدے اور کتنے نقصانات ہوئے تاہم اس سے قطع نظر ذاتی حیثیت میں ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ کچھ رُکے ہو ئے کام جو عدم فرصت کے باعث التویٰ کا شکار تھے، ہمارے کان میں کہنےلگے کہ اب تمہارے پاس کوئی بہانہ نہیں بچا۔

انہی بہت سے کاموں میں ایک کام وہ بھی تھا کہ جس کی تلقین ہم سارے زمانے کو کیا کرتے ہیں، یعنی کتب بینی۔ گو کہ ہم نے اب بھی اپنا تما م تر وقت کتب بینی کو نہیں دیا تاہم کچھ نہ کچھ آنسو پوچھنے کا سامان ہو ہی گیا۔

قصہ مختصر ، سید ذوالفقار علی بخاری کی آپ بیتی "سرگزشت" جو ہمارے زیرِ مطالعہ تھی اور جسے ہم مزے لے لے کر آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے، اُسے کچھ زیادہ وقت ملا اور ہم مکمل کتاب پڑھنے میں کامیاب ہو گئے، یا کتاب ہم سے جان چھرانے میں کامیاب ہو گئی۔

سرگزشت نہایت دلچسپ کتاب ہے ۔ فاضل مصنف نے یہ آپ بیتی بالکل غیر رسمی انداز میں لکھی ہے اور اس میں بے ساختگی کمال کی ہے ۔ تاہم غیر رسمی ہونے کے باوجود کتاب کے تمام تر مضامین باہم مربوط نظر آتے ہیں۔

اسے ان کتابوں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے کہ جو ختم ہونے کے قریب آئیں تو دل میں ملال سا ہوا کہ یہ دلچسپ کتاب اب ختم ہو جائے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "غبارِ خاطر" اور کچھ دیگر کتابوں کے اختتام پر بھی ہماری ایسی ہی کچھ کیفیت تھی۔ غبارِ خاطر میں اور اس کتاب میں ایک اور قدرِ مشترک باموقع فارسی اشعار کی شمولیت بھی ہے۔ فارسی اشعار ہماری سمجھ میں بامشکل ہی آتے ہیں ۔ لیکن مقامِ شکریہ رہا کہ غبارِ خاطر کی طرح اس کتاب کے آخر میں فارسی اشعار کی تشریح موجود نہیں تھی ورنہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے بھی ہم نفسِ مضمون اور تفہیمِ شعر کی حسرت کے درمیان ہی معلق رہتے۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں نے کافی عرصے بعد ایک بہت دلچسپ کتاب پڑھی اور اپنے وقت کا زیاں ہرگز محسوس نہیں ہوا۔

بخاری صاحب نے مضامین کو کوئی عنوان نہیں دیا بلکہ اُنہیں شمار کیا ہے اور اس اعتبار سے کتاب میں کل 55 مضامین ہیں۔ کتاب کے مضامین گو کہ کہانی کی صنف سے علاقہ نہیں رکھتے تاہم بخاری صاحب ہر مضمون کو نکتہ عروج یعنی کلائمیکس تک لے جاتے ہیں اور اکثر مضامین کا انجام افسانوں کے انجام کی طرح ہوتا ہے اور قاری کتاب ہاتھ میں لیے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ مضامین فکشن نہیں ہیں تاہم فکشن سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ خاکسار کی رائے میں ایسا طرزِ تحریر قسمت والوں کو ہی میسر آتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کتاب میں شاذ ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ کوئی بات دُہرائی جا رہی ہے۔ ورنہ اکثر آپ بیتیاں مکر ر ارشاد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ لوگ اُلٹ پھیر کر وہی مضامین بیان کرتے چلتے جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ بخاری صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزار ی ہے اور ریڈیو جیسے محکمے میں جو اُس وقت بے حد اہمیت کا حامل تھا ایک اہم عہدے پر فائز رہے اور سرگرم طبعیت کے باعث ہمہ وقت پر عزم اور مصروف عمل رہے ۔

بہرکیف کتاب انتہائی پرلطف ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنا قیمتی وقت اس کے لئے نکالا جائے۔


*****

تبصرہ ٴکُتب | احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

یہ کتاب معروف پاکستانی صنعت کار جناب احمد داؤد کی سوانح عمری ہے اور اسے عُثمان باٹلی والا صاحب نے لکھی ہے۔ احمد داؤد پاکستان میں صنعتکاری کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور کاروباری اعتبار سے پاکستان میں اُن کا نام کافی اہم ہے۔

کتاب کی زبان صاف ستھری ہے اور مضامین بڑے واضح اور آسان انداز میں لکھے گئے ہیں ۔غرض یہ کہ تحریر پر مصنف کی گرفت مضبوط ہے اور مضامین کا ابلاغ ایک عمومی قاری کے لئے بے حد آسان ہے ۔

احمد داؤد کی سوانح عمری ہندوستان سے شروع ہو کر پاکستان تک آ جاتی ہے۔ احمد داؤد کی ساری زندگی محنت اور جانفشانی سے عبارت ہے۔ کاروباری برادری سے تعلق ہونے کے باعث اُن کو کاروباری سمجھ بوجھ وراثت میں ملی تھی۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے اپنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔

نوجوانوں کے لئے ان کی زندگی میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔ احمد داؤد کام کو زندگی سمجھتے تھے اور ہمیشہ انتھک محنت اور لگن سے اپنے اہداف کے حصول میں لگے رہتے تھے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے احمد داؤد کے کچھ اقوالِ زریں میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔

"Pursue work not money. Get down to work and don’t pursue money. If you run after the money it might run away but if you concentrate on your work, money will automatically follow you. So work, work and only work."

"Never lose your hope while passing through unfavorable conditions or experiencing tough times"

"Leave your nose (ego, arrogance or hot temperament) at home while going out for work."

Ahmed Dawood
گو کہ مصنف نے احمد داؤد صاحب کی کچھ خامیوں کا ذکر کیا ہے تاہم ان کا یہ ذکر برائے خانہ پوری ہی معلوم ہوتا ہے۔ خاکسار کا خیال ہے کہ ہر کامیاب شخص کی طرح احمد داؤد کی شخصیت بھی کہیں نہ کہیں ضرور متنازع رہی ہوگی اور اُن کے دوستوں کے ساتھ ساتھ اُن سے اختلاف رکھنے والے لوگ یا اُن پر تنقید کرنے والے لوگ بھی ضرور ہوں گے۔ تاہم یہ کتاب اس معاملے میں خاموش ہے ۔ غالباً یہ کتاب اُن کی برداری کے ایک فرد کی طرف سے لکھی گئی ہے سو اسے ایک غیر جانبدار کتاب گرداننا دشوار ہو گا۔

تاہم احمد داؤد کی زندگی اور جدو جہد سے سبق سیکھنے والوں کے لئے یہ کتاب بہر کیف مفید ہے۔ 

بلا ضرورتِ رشتہ

بلا ضرورتِ رشتہ
از محمد احمد


آج وہ کافی موڈ میں تھا۔

سامنے سے آنے کے باوجود اُس نے گھوم کر میری کمر پر ہاتھ مارا ۔
"او یار !میں نے تیرے لیے ایک رشتہ دیکھا ہے۔" وہ ایسا خوش تھا کہ جیسے ایسا پہلی بار ہوا ہو۔
"سچی! "میں نے ہمیشہ کی طرح حیرانی کا اظہار کیا۔
"ہاں یار!" بڑی خوبصورت لڑکی ہے۔
"اچھا! "

"ہاں بڑی خوبصورت ہے بھئ۔۔!" اُس کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔
"صراحی دار گردن ہے ۔" رنگ چھوڑ کر گردن سے بات شروع کرکے شاید وہ خود کو دیگر پاکستانیوں سے ممتاز کرنا چاہ رہا تھا۔
"صراحی دار گردن" میں نے خیالیہ انداز میں دُہرایا۔
"پھرتو میں ایک ہاتھ سے اُس کی گچی دبا سکوں گا۔" میں نے مُٹھی بھینچتے ہوئے کہا۔

"ہرنی جیسی آنکھیں۔" اُس کی مشین چل پڑی تھی۔
"پھر تو بہت تیز دوڑتی ہوگی۔ " میں نے حیرت سے کہا
"ارے میں آنکھوں کی بات کر رہا ہوں۔" وہ جھنجلا کر بولا۔
"ہاں تو ہرنی تیز ہی دوڑتی ہے۔ اب میں اتنا بھی پاگل نہیں ہوں ۔" 


"تمہیں پتہ ہے ! بچپن میں میرے نانا کہتے تھے کہ میں بڑا ذہین ہوں۔" میں نے اُسے کچھ باور کروانے کی ضرورت محسوس کی۔
"یار ایک بار تمہارے نانا نے میرے ناناسے اردو لغت اُدھار مانگی تھی جو میرے نانا نے دی نہیں تھی۔ اگر لغت مل جاتی تو شاید وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔"

"اچھا فضول باتیں چھوڑو یہ بتاؤ کہ اُس کی زلفیں ناگن کی طرح تو نہیں ہیں؟ " میں نے موضوع پر واپس آتے ہوئے پوچھا۔
"زلفیں اسپرنگ والی ہیں اُس کی۔ اکثر چمٹا پکڑ کر سیدھی کرتی نظر آتی ہے۔ "
"چل شکر ہے ناگن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں تو ناگن چورنگی سے بھی ڈرتے ڈرتے گزرتا ہوں۔" میری آنکھوں میں خوف کے سائے لہرانے کے بجائے ساکت و صامت تھے۔

"رنگ تو بتایا نہیں تم نے اُس، کا گندمی ہے یا چقندر جیسا ہے؟ " مجھے رنگ کی پڑی تھی۔
"اب تو بہت گوری ہو گئی ہے، لیکن بچپن میں کھڑی مسور کی دال جیسا رنگ تھا اس کا" اُس نے کچھ سوچتے ہوئے بتایا۔
"یار چیک کر لینا تھا، کہیں پندرہ منٹ بعد پھر سے فائزہ کی طرح ہو جائے۔" فکر مندی میرے چہرے سے عیاں تھی۔

"اچھا بات سُنو! تم نے اسے بتا تو دیا ہے نا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔ " میں نے ڈیل کلوز کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ تم اُسے رانی کی طرح رکھو گے۔"
"ارے بے وقوف! ہو سکتا ہے اُس نے یہ لطیفہ پڑھا ہوا ہو" میں نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"پڑھا تو ضرور ہو گا لیکن سمجھی نہیں ہوگی۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"کیوں نہیں سمجھی ہوگی بھلا؟" مجھے بڑا تعجب ہوا۔
"خوبصورت ہونے کی ناطے وہ کافی غبّی ہے۔" اُس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔

"چلو خوبصورت تو ہے نا! میری طرف سے ہاں ہے۔" میں کافی خوش تھا۔
"ہاں! لیکن ایک مسئلہ ہے!" اُس نے ہینڈ گرنیڈ کی پن نکال پھینکی۔
"اب کیا مسئلہ ہے یار؟" مجھے طیش آ گیا؟
"وہ پاکستان میں نہیں رہنا چاہتی!" اُس نے بم پھاڑ ہی دیا۔
"اگر تم کسی طرح کسی مغربی ملک کی شہریت حاصل کر لو تو وہ اُسی وقت دو بول پڑھانے پر راضی ہو جائے گی"۔

"تمہیں پتہ ہے، میں بہت ضروری کام کر رہا تھا۔" میری یاد داشت واپس آنے لگی۔
"یار تم کوشش تو کرو!" اُس نے اپنے جوتوں کے لیس باندھتے ہوئے کہا۔
"مجھے کل تک یہ پروجیکٹ فائنل کرنا ہے۔ " میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا! چلو شام کو چائے پر ملتے ہیں!" اُس نے الوداعی جملہ پھینکا۔
"ٹھیک ہے، لیکن چائے سے پہلے میں چپلی کباب بھی کھاؤں گا۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اچھا بابا ٹھیک ہے، ویسے بھی کچھ کھائے بغیر تمہارا غم کیسے غلط ہو سکتا ہے۔" وہ مُسکراتے ہوئے اُٹھا اور لہراتے ہوئے نکل گیا۔

*****