چیمپئن اور چہیتا
جارج برنارڈ شا نے کہا تھا ۔ "میں ڈائنامائٹ کی ایجاد پر الفریڈ نوبل کو تو معاف کرسکتا ہوں لیکن نوبل پرائز کی ایجاد کا کام ایک شیطان ہی کرسکتا ہے۔ "
I can forgive Alfred Nobel for inventing dynamite, but only a fiend in human form could have invented the Nobel Prize.
جارج برناڈ شا کو لٹریچر کے نوبل پرائز سے نوازا گیا اُس نے اپنی اہلیہ کے اصرار پر نوبل پرائز تو قبول کرلیا لیکن انعام میں ملنے والی رقم لینے سے انکار کردیا تھا اور مذکورہ بالا تاریخی جملہ ادا کیا۔ یہ ہے وہ رویّہ جو غلط کو ہر حال میں غلط کہتا ہے چاہے اُس میں اپنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ لیکن ایسے لوگ شاذ ہی ملتے ہیں جبکہ دنیا میں دُہرے معیار ات کی مثالوں کی کمی نہیں ہے۔
ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر نیوکلیئر بم گرانے والا امریکہ آج ایران کے نیوکلیئر طاقت کے حصول کی کوششوں کو پوری قوت سے روک رہا ہے اور ہر ہر محاذ پر اس کے آگے بند باندھ رہا ہے۔ یہی امن کا چیمپئن جنوبی کوریا اور شام سے تو شدید خائف ہے لیکن اپنے چہیتے اسرائیل کے لئے سب کچھ حاضر ہے ، سب کچھ جائز ہے ۔ کیوں ؟ وہی ڈبل سٹینڈرڈ۔
ایک ہی بات کوئی اور کرے تو امنِ عالم کے لئے خطرہ اور وہی بات اپنے لئے اور اپنے حواریوں کے لئے جائز! عراق اور افغانستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک و برباد کرنے والوں کے لئے امن کا نوبل انعام اور اپنے حق اور حب الوطنی کے لئے لڑنے والے دہشت گرد۔ ٹیرارسٹ!کیوں ؟ وہی ڈبل سٹینڈرڈ۔
آج اسرائیل فلسطین کے خلاف کھلی دہشت گردی پر اُترا ہوا ہے لیکن صاحب بہادر کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے آخر کیوں؟ اگر امریکہ جیسا موڈریٹ، امن پسنداور انسانی حقوق کا علمبردار ملک اپنی پالیسیوں میں اس قدر تنگ نظری برت رہا ہے تو پھر وہ لوگ جو کہلاتے ہی دہشت گرد ہیں اُن سے کوئی کیا اُمید رکھ سکتا ہے۔
حوالہ جات: ۱ ۲ ۳
اسی طرح کے اقدامات اور دوغلے رویے ہوتے ہیں جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے۔
جواب دیںحذف کریںمسلمانوں کو اسی ڈبل اسٹینڈرڈ سے ہنکایا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںاسرائيل فلسطينيوں پر اور بھارت جموں کشمير کے لوگوں پر 62 سال سے ظُلم ڈھا رہے ہيں جو درندگی کی سب سے بڑی مثال ہے ۔ اسی طرح امريکا نے جاپان ۔ جنوبی امريکا ۔ افريقہ ۔ عراق اور افغانستان ميں درندگی کا مظاہرہ کيا ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے کو اپنی لپيٹ ميں لے چکا ہے مگر بگل امن اور انسانيت کا بجايا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںبدقسمتی تو يہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو سمجھ نہيں آتی کہ ہو کيا رہا ہے
برنارڈ شا نے بالکل ٹھیک کہا تھا
جواب دیںحذف کریںdunia mai andha qanoon hai ... kamzoor ko har koi marta hai
جواب دیںحذف کریںناں جی امریکہ وغیرہ کو قصور وار نہ ٹھہرائیں
جواب دیںحذف کریںاپنے ہی لوگوں کی چھترول کریں
پھر دیکھیں آپ کی کیسے بلے بلے ہوتی ہے
بھائی ابو شامل!
جواب دیںحذف کریںآپ کی بات بجا ہے لیکن صاحب بہادر شاید یہ بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے .
شازل صاحب،
جواب دیںحذف کریںکیا کیجے کہ اس حال تک پہنچنے میں خود ہمارا ہاتھ اِن لوگوں سے زیادہ ہے.
افتخار اجمل بھوپال!
جواب دیںحذف کریںاس دورِ نفاق میں یہی کچھ ہو رہا ہے سو امریکہ اور اُس کے حواری بھی امن کے نام پر ظلم و بربریت پر اُترے ہوئے ہیں.
سعد بھیا ! ٹھیک سمجھے آپ.
جواب دیںحذف کریںسعدیہ صاحبہ، یہ بات واقعی ٹھیک ہے بقول اقبال
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
جعفر بھائی !
جواب دیںحذف کریںبجا فرمایا آپ نے!
لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جو لوگ صبح شام انتہا پسندی کی تسبیح پڑھتے ہیں اور دہشت گردی کا ورد کرتے ہیں اُنہیں دہشت گردی کے نام پر صرف مسلمان ہی نظر آتے ہیں اور ان لوگوں میں اتنی اخلاقی جرآت بھی نہیں کہ یہ امریکہ اور اس کے چہیتوں کے خلاف زبان کھول سکیں۔ نہ جانے ایسا کیوں ہے۔
ویسے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں (ہم بھی اُنہیں لبرل ہی کہتے ہیں سیکولر اچھا نہیں لگتا) اگر وہ بھی امریکہ کو دہشت گرد کہنا شروع کردیں تو اُن میں اور اُن کے حریفوں میں فرق کیا رہ جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لبرل طبقہ ناموسِ رسالت پر بھی خاموش نظر آتا ہے اور اور امریکہ سے بھی راضی۔
ارے صاحب یہ کیا
جواب دیںحذف کریںآپ جیسا میچور بندہ بھی اب امریکہ سے انصاف کی توقع اور نا انصافی پر شکوہ کرے گا؟
ڈفر بھائی !
جواب دیںحذف کریںآپ کا تبصرہ دیکھ کر جون ایلیا یاد آگئے ۔ انہوں نے کہا تھا:
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
سو اس سے پہلے کہ کوئی ہمارا منہ نوچے ہم امریکہ سے اپنے سارے گلے دور کر لیتے ہیں اور ہاں آپ نے ہمیں میچور بھی تو کہہ دیا اب تو ہمیں کسی سے کوئی بھی گلہ نہیں ہے۔ (:
ویسے تفنن برطرف، مجھے بھی امریکہ سے کوئی اُمید نہیں ہے لیکن قول و فعل کے تضاد پر احتجاج ضرور کرتے رہنا چاہیے اس سے کم از کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ یہ لوگ دُنیا دکھاوے کے لئے ہی سہی کچھ نہ کچھ انصاف سے بھی کام لے لیتے ہیں۔