غزل
فہمِ آدابِ سفر اہلِ نظر رکھتے ہیں
رکھتے ہیں ذوقِ نظر، زادِ سفر رکھتے ہیں
زندگی حسن پہ واری ہے تو آیا ہے خیال
منزلوں کو یہی جذبے تو امر رکھتے ہیں
شعلۂ شمعِ کم افروز کو بھڑکاؤ کہ آج
چند پروانے ہواؤں کی خبر رکھتے ہیں
ایک پتھرائے ہوئے دل کا بھرم قائم ہے
کہتے پھرتے ہیں کہ لوہے کا جگر رکھتے ہیں
اس کے لہجے کا وہ ٹھہراؤ غضب کی شے ہے
جانے دل کو یہ دل آزار کدھر رکھتے ہیں؟
پاس رکھا کیے پندارِ جنوں کا راحیلؔ
آج دہلیز سے اٹھتے ہوئے سر رکھتے ہیں
راحیل ؔفاروق
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں