کچھ اور سخن کر کہ غزل سلکِ گہر ہے!
ہفتہ ٴ غزل کے لئے ہمارے عزیز دوست راحیل فاروق کا خصوصی مضمون
عالمی ادب کے تناظر میں دیکھا جائے تو غزل یوں معلوم ہوتی ہے جیسے جل پریوں کے جمگھٹ میں کوئی آسمانی پری سطحِ آب پر اتر آئی ہو۔ اجنبی اجنبی، وحشی وحشی، تنہا تنہا۔ جس کے حسنِ سوگوار پر لوگ ریجھ بھی جائیں اور سٹپٹا بھی جائیں۔ دیوانوں کو اس کا جمالِ بے ہمتا وجد میں لے آتا ہے اور فرزانوں کو اس کی ہئیتِ منفردہ فتنے میں ڈال دیتی ہے۔ کوئی سر دھنتا ہے اور کوئی پیٹتا ہے۔ سب سچے ہیں۔
غزل وہ بے نظیر صنفِ شاعری ہے جسے نظم کہنا ممکن نہیں۔ دنیا بھر کی اصنافِ شعر نظم ہی کی مختلف صورتیں ہیں جن میں کوئی خیال آہنگ اور قافیے کے التزام کے ساتھ اجمال یا تفصیل کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ رباعی اور قصیدے سے لے کر سانیٹ اور ہائیکو تک سب کی سب اصنافِ سخن اسی بحرِ جمالیات کی جل پریاں ہیں۔ مگر غزل چیزے دگر ہے۔ یہ جمالیات سے نکلی نہیں بلکہ الہام کی طرح اس پر نازل ہوئی ہے۔ اس سمندر کے رنگین چھینٹے اس کے دامنِ بیضا پر پڑتے تو ہیں مگر عرش کی پہنائیوں سے اس کا رشتہ منقطع نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے کہ مجرد فلسفیانہ اور مذہبی خیالات کے اظہار کی غیر معمولی قوت اس میں اسی باعث پائی جاتی ہو۔
ارفع حقائق کو سادہ لفظوں میں بیان کرنے کی کوششیں یا مبالغے پر منتج ہوتی ہیں یا مغالطے پر۔ مگر کیا کیجیے کہ مناسبِ حال پیرایۂِ اظہار اور زیادہ بڑا امتحان ہے۔ ہر دو انتہاؤں سے بچتے ہوئے ہم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاعری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے غزل درحقیقت نظم کی نقیض ہے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ نظم میں اور اس میں کوئی قدرِ مشترک نہیں بلکہ یہ دونوں ایسے معنوی بعد پر واقع ہوئی ہیں جس کی مثال ادبیات میں شاذ ہے۔ نظم کثرت کے اندر وحدت ہے اور غزل وحدت کے اندر کثرت!
غزل کی تقویم کچھ ایسی ہے کہ ہئیتی اعتبار سے تو وہ ایک وحدت ہوتی ہے مگر معنوی اعتبار سے نظموں کے ایک گلدستے کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا غزل کا ہر شعر ایک جداگانہ نظم ہے اور ایک نظم فی الاصل غزل کے ایک طویل شعر سے زیادہ کچھ نہیں۔ اقبالؔ علیہ الرحمۃ کی شہرۂِ آفاق نظم "شکوہ" اٹھائیے اور غالبؔ کے اس شعر کے سامنے رکھیے۔ بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگے گی۔
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئِ فرشتہ ہماری جناب میں!
مگر اس سیدھی سادی سی حقیقت کی الٹی سیدھی تفہیمات نے بڑے بڑوں کی چیں بلوائی ہے اور اب بھی کئی ہیں کہ اس نیرنگی پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے روحِ شاعری کے شایان نہیں سمجھتے۔ مگر ہم جس طرح اور جس قدر غزل کو سمجھتے ہیں اس لحاظ سے بہت رعایت بھی کریں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ بدقسمت ہے وہ شخص جو غزل کا ذوق نہیں رکھتا اور نامکمل ہے وہ ادب جس میں اس صنف نے بار نہیں پایا۔ ایجاز اور شوخی سے لے کر تہہ داری اور آفاقیت تک الوانِ ادب میں کیا ہے جس کی تجسیم غزل میں نہیں؟ ہمیں پوری ایمان داری کے ساتھ نظریۂِ ادب، تنقید، جمالیات اور لسانیات وغیرہ کی دریافت کردہ کوئی وقیع قدر ایسی نظر نہیں آتی جس کی کامل ترجمانی غزل میں نہ ہو چکی ہو۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ ایسے سب اصولوں کی بیک وقت متحمل بھی صرف اور صرف غزل ہی ہو سکتی ہے۔ کسی اور صنفِ ادب کی یہ تاب نہیں کہ وہ مثلاً ایجاز اور اطناب کے جلوے ایک ہی شہ پارے میں یکجا کر سکے۔
غزل کی یہ تکثیریت بجائے خود بڑی معنیٰ خیز اور عالم فریب ہے۔ یعنی شاعر ایک شعر میں وصال کی امید پر رقص کرتا ہے تو دوسرے شعر میں ہجر کی یاس اسے مفلوج کر ڈالتی ہے۔ نا آشنایانِ راز یہیں سے دھوکا کھاتے ہیں اور اسے غیر فطری یا وحشیانہ خیال کرتے ہیں۔ محرمِ درونِ خانہ کے نزدیک یہی سیمابی نہ صرف غزل بلکہ خود اس کارخانۂِ فطرت کا بھی جوہر ہے جس کی ترجمانی غزل کرتی ہے۔ ایک بالغ نظر اور باشعور شخص، خواہ وہ کسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتا ہو، گواہی دے گا کہ انسان کے افکار اور وجود ایک شرارِ جستہ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ ادھر ایک خیال آتا ہے اور ادھر اس کے دامن سے ایک اور ٹپک پڑتا ہے اور ذہنِ انسانی کو کشاں کشاں کسی اور سمت لیے جاتا ہے۔ وہاں پہنچتا نہیں کہ راہ کی بوقلمونیاں ایک نئی منزل کا اشارہ دے دیتی ہیں۔ ادھر کو چلتا ہے تو ناگہاں کوئی اور خیال وارد ہو کر راہ مارتا ہے۔ اس مظہر کو ماہرینِ نفسیات شعور کی رو (stream of consciousness) سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی اور فطرتی بہاؤ ہے جس میں رکاوٹ جنون کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ جنون خیالات کے ایک نکتے پر منجمد یا مرتکز ہو جانے کے سوا کچھ اور نہیں!
حیرت ہے کہ مغربی اکابرینِ ادب کو شعور کی رو سے ادب میں استفادے کا خیال بیسویں صدی میں جا کر آیا اور یہ استفادہ کیا بھی گیا تو ایسا بھونڈا کہ بجائے خود دیوانے کی بڑ معلوم ہوتا ہے۔ متغزلین کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرصۂِ دراز سے اس راہ کے شہسوار ہیں۔ اور شہسوار بھی ایسے کہ جن کی اڑائی ہوئی گرد بھی شعور کی رو کے تحت لکھنے والے مصنفین کے لیے سرمۂِ مفتِ نظر کی حیثیت رکھتی ہے۔ غزل کے مطلع سے لے کر مقطع تک احساسات اور افکار کا ایک دریا ہے جو بہتا چلا جاتا ہے اور میدانِ ہستی کے ذرے ذرے کو ساتھ بہائے لیے جاتا ہے۔ کیا ہے جو اس کی دست برد میں نہیں؟
بعض کا خیال ہے کہ غزل گو کو قافیے اور ردیف کی قید کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا اٹھا کر بھان متی کا کنبہ جوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ایک اوسط درجے کے شخص کے لیے نظم لکھنا درحقیقت غزل لکھنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کی صاف صاف وجہ یہ ہے کہ ایک خیال کا کسی مناسبِ حال ہئیت میں موزوں تفصیل کے ساتھ اظہار کرنا کسی غیر معمولی لیاقت کا تقاضا نہیں کرتا مگر آٹھ دس اشعار میں آٹھ دس خیالات کو کمالِ ایجاز و بلاغت کے ساتھ بیان کرنا پتا پانی کر دیتا ہے۔
اس سے مترشح ہوتا ہے کہ غزل کا حقیقی شاعر تخلیقی اور فکری وفور کے اعتبار سے باقی شعرا پر ایک غیرمعمولی فوقیت رکھتا ہے۔ وہ خیالات، احساسات اور اسالیب کی ایسی فراوانی سے بہرہ ور ہوتا ہے جو اظہارِ فن کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو گویا ایک نئے موقع کے طور پر دیکھتی ہے۔ جہاں زمینِ غزل نے کوئی ایسی کروٹ لی کہ جس پر بحر، قافیے یا ردیف کی غرابت کے باعث مرگِ فن کا شبہ ہو، وہیں ایک طرفہ خیال اور ایک نادر احساس جو نہاں خانۂِ دل میں گویا ازل سے اسی انتظار میں بیٹھا تھا، نکل کر مسکرانے لگا۔ متغزلین کے دیوان اٹھا کر دیکھیے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ فکر اور احساس کا تنوع کیا شے ہے۔ بالفاظِ دیگر، انسان کیا شے ہے اور کائنات کیا شے ہے۔ یہ بصیرت آپ کو نظم نہیں دے سکتی!
بہت شکریہ، احمد بھائی!
جواب دیںحذف کریں