غزل
اِک ہوا تھی جس میں سب بہتے رہے
اور اُسے اپنی سمجھ کہتے رہے
اس توقع پر کہ دن پھر جائیں گے
رات کے جور و ستم سہتے رہے
لوگ شاہوں سے تقرب کے لئے
کربلا کی داستاں کہتے رہے
زلزلوں کے قہر سے محفوظ تھے
ہم کہ اپنے آپ میں رہتے رہے
اِک نگاہِ لطف کے محتاج تھے
ویسے ہم خود کو غنی کہتے رہے
شیخ زیدی طنطنے کے باوجود
وقت کے سیلاب میں بہتے رہے
سہیل احمد زیدی
جواب دیںحذف کریںاِک نگاہِ لطف کے محتاج تھے
ویسے ہم خود کو غنی کہتے رہے
واہ
اچھا شعر ہے
ویسے ہم خود کو غنی کہتے رہے
کیا خوب غزل ہے۔۔۔ پہلی بار پڑھی۔ مزا آگیا۔۔۔
جواب دیںحذف کریں