حضرتِ انسان اور ہم یعنی بُلبُلِ بے تاب بقلم خود​

حضرتِ انسان اور ہم یعنی بُلبُلِ بے تاب بقلم خود​

نہ جانے اس کے پیچھے کیا راز ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ حضرت انسان کو ہم سے شروع سے ہی کچھ پرخاش سی ہے۔ سو اس نے ہمیشہ اس پرخاش پر لبیک کہا اور ہماری چونچ میں دم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ یعنی خود اشرف المخلوقات ہو کر بھی ہم سے چونچ لڑانے پر تُلا رہا اور یہ بھی نہ سوچا کہ بھلا میں انس کہاں، جانور غریب کہاں۔۔! انسانوں میں بھی بالخصوص شعراء ہم سے ٹھیک ٹھاک بیر رکھا کرتے ہیں۔

یہی دیکھ لیجے کہ ہماری اوائل عمری میں ہی انسان نے ہمیں مشقِ ستم بنا لیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک سبز بخت نے انسانوں کے بچوں کے لئے نظم لکھنے کے نام پر بلبل کے ایک سادہ و معصوم بچے پر خوب ستم ڈھائے۔ اور علی االاعلان سب کو اپنے کارنامے بھی بتائے۔ لیکن انسانوں میں سے کوئی ایک بھی اس معصوم طفلِ بُلبُل سے ہمدردی کرنے والا نہیں ملا۔
جناب فرماتے ہیں:

بلبل کا بچہ ،کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی


صحافت کی دنیا میں یہ بات مشہور ہے کہ کتا اگر انسان کو کاٹ لے تو یہ کوئی خبر نہیں ہے کہ انسان اکثر و بیشتر کتوں سے کٹوانے کا سامان کر ہی لیتا ہے لیکن اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ ایک خبر ہے۔ اب اگر اسی فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ شاعری کو دیکھیں تو اس نظم میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔

ارے بھائی بُلبل کا بچہ کھچڑی ہی تو کھا رہا تھا ۔ کوئی ڈائنامائٹ تو نہیں چبا رہا تھا کہ آپ یوں سیخ پا ہو گئے۔ اب اگر آپ کے گھر میں کھچڑی کے علاوہ کچھ بنتا ہی نہیں ہے تو اُس میں بلبل کے بچے کا کیا قصور ! پھر پانی پینے کی بھی اس قدر تشہیر ہو رہی ہے کہ خدا کی پناہ! نہ جانے وہ کون سا پانی پی گیا کہ بستی والوں کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

آگے فرماتے ہیں:

گاتا تھا گانے
میرے سرہانے


اب بھلا بتائیے آپ کون سا میر صاحب ہیں کہ آپ کے سرہانے آہستہ بولا جائے۔ بے چارہ بچہ اگر گانا گا رہا ہےتو گانے دیجیے۔ اگر زیادہ ہی تنگ ہو رہے ہیں تو تکیہ سرہانے سے اُٹھا کر پائنتی پر رکھ لیجے۔ لیکن نہیں! آپ نے تو یہ بات دل میں ہی رکھ لی اور موقع کی تاک میں گھات لگا کر بیٹھ گئے۔

مزید فرماتے ہیں:

اک دن اکیلا بیٹھا ہوا تھا
میں نے اُڑایا، واپس نہ آیا


لیجے پست ہمتی دیکھیے کہ ایک معصوم بلبل کے بچے کو گھیرنے کے لئے بھی جناب نے اُس کے اکیلے ہونے کا انتظار کیا۔ اور ہُش کرکے اُڑا دیا۔ اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ ہُش کرنے کا تذکرہ شاعر نے نہیں کیا۔ جس طرح کچھ چیزیں زیبِ داستان کے لئے بڑھائی جاتی ہیں ویسے ہی کچھ چیزیں حذف بھی کر دی جاتی ہیں۔

پھر اس پر مستزاد یہ کہ اُسے اُڑا کر اُس کی واپسی کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔ بغیر بجلی کے اتنے اچھے اچھے گانے سُننے سے محروم جو ہوگئے۔ لیکن وہ واپس نہیں آنے والا۔ بھلا وہ کیوں واپس آئے؟ کھچڑی کھانے؟ اور اِس من و سلویٰ کے بھی اُسے طعنے سُننے کو ملیں۔ نہیں بھئی نہیں! قریب ہی ایک جگہ چڑا اور چڑیا رہتے ہیں۔ ایک بھلا مانس چاول کا دانہ لے آتا ہے ایک دال کا دانہ لے آتی ہے، کھچڑی تو وہاں بھی مل جائے گی ۔ بس اُن سے دوستی گاٹھ لیں گے۔ کم از کم جیسے بھی ہیں، اپنے تو ہیں۔

ایک اور شاعر کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں


اب بتائیے۔ بھئی آپ چمن میں گئے ہی کیوں؟ بچپن سے آپ نے "ہم پھول چمن میں آتے ہیں" کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور نہ جانے کیا کیا عزائم ہیں آپ کے ، اس کے پیچھے۔ نہ آپ چمن میں جاتے نہ ہی پنڈورہ باکس میرا مطلب ہے دبستاں یا وہ جو بھی تھا، کُھلتا۔

پھر اُس پر زعم یہ کہ بلبلیں ان کی دھائیں دھائیں سن کر غزلخواں ہوئیں۔ بھول گئے وہ وقت جب بچپن ہی سے آپ بلبل کے بچے کے گانے سنا کرتے تھے ۔ کیا یہ بھی میں یاد دلاؤں کہ آپ کی طبیعت میں موزونیت بھی بے چارے جلاوطن بلبل کے بچے کے مرہونِ منت ہے۔ ورنہ فعلن فعولن کے چوکھٹوں میں الفاظ بٹھانا آپ کے بس کی بات ہرگز نہیں تھی۔ لیکن آپ نے احسان ماننے کے بجائے احسان فراموشی کو وتیرہ بنایا اور ہمیشہ کی طرح ہر اچھے کام کا کریڈٹ لینے پر کمر بستہ و سینہ کشاد ہو گئے۔

ایک اور صاحب فرماتے ہیں:

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے


اب بھلا بتائیے، افئیر آپ کا چل رہا ہے اور آپ ہمیں بلا وجہ گھسیٹ رہے ہیں ۔ اور اپنی زوجہء ناکردہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دل یہ چاہتا ہے کہ تمہیں گل کے رو برو بٹھائیں اور ہم بلبلِ بے تاب سے گفتگو کریں۔

؂ تمہیں اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں۔

اب یہ بھی کسی کو کیا پتہ کہ ہماری اور گُل کے عشق کی داستان اتنی تھی نہیں کہ جتنی اُسے شاعروں نے رگڑا ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ :

؂ اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام


خیر، ہم کیوں کسی کی غیبت کریں ، کچھ شاعر اچھے بھی ہوتے ہیں اور ہر حال میں حقیقت کو ہی مقدم جانتے ہیں۔ جیسے کہ یہ ایک شعر ہے:

چمن میں نہ بلبل کا گونجے ترانہ
یہی باغبان چمن چاہتا ہے


کیا سچی بات ہے۔ لیکن جو شعر میرا "موسٹ فیورٹ" ہے وہ کچھ یوں ہے:

سنا ہے کہ دلی میں الو کے پٹھے
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں


اور اسے دلی کے علاوہ بھی کئی ایک شہروں کے نام بدل بدل کر پڑھنےمیں مزہ آتا ہے۔ رگِ گل سے بلبل کے پر باندھنے کا تو خیر نہ جانے کیا مطلب ہے لیکن پہلا مصرع ہی ایسا کامل ہے کہ دوسرے کا خیال ہی نہیں آتا۔

بہر کیف،

کہنی سنی معاف!

از قلم:
بلبل ِ بے تاب

جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے۔۔۔ عمیر نجمی

غزل

ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے

رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے

جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے

میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے
شاہ زادی یہ ترا حق تھا تجھے شاہ ملے

ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزر گاہ ملے

اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے

گھر پہنچنے کی نہ جلدی نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سر راہ ملے

عمیر نجمی