حمدِ جنابِ باری
حجابِ شب میں تب و تابِ خواب رکھتا ہے
درون ِخواب ہزار آفتاب رکھتا ہے
کبھی خزاں میں کھلاتا ہے رنگ رنگ کے پھول
کبھی بہار کو بے رنگ و آب رکھتا ہے
کبھی زمین کا منصب بلند کرتا ہے
کبھی اِسی پہ بِنائے عذاب رکھتا ہے
کبھی یہ کہتا ہے سورج ہے روشنی پہ گواہ
کبھی اِسی پہ دلیلِ حجاب رکھتا ہے
کبھی فغاں کی طرح رائیگاں اثاثہ ٴ حرف
کبھی دُعا کی طرح مُستجاب رکھتا ہے
کبھی برستے ہوئے بادلوں میں پیاس ہی پیاس
کبھی سراب میں تاثیرِ آب رکھتا ہے
بشارتوں کی زمینیں جب آگ اُگلتی ہیں
اِس آگ ہی میں گُلِ انقلاب رکھتا ہے
میں جب بھی صبح کا انکار کرنے لگتا ہوں
تو کوئی دل میں مرے آفتاب رکھتا ہے
سوال اُٹھانے کی توفیق بھی اُسی کی عطا
سوال ہی میں جو سارے جواب رکھتا ہے
میں صابروں کے قبیلے سے ہوں مگر میرا رب
وہ مُحتسب ہے کہ سارے حساب رکھتا ہے
افتخار عارف
کبھی یہ کہتا ہے سورج ہے روشنی پہ گواہ
جواب دیںحذف کریںکبھی اِسی پہ دلیلِ حجاب رکھتا ہے
کیا بات ہے۔۔۔
رومی فرماتے ہیں۔۔۔۔
خورشید را حاجب تویی اومید را واجب تویی
مطلب تویی طالب تویی هم منتها هم مبتدا
میں جب بھی صبح کا انکار کرنے لگتا ہوں
جواب دیںحذف کریںتو کوئی دل میں مرے آفتاب رکھتا ہے
لطف آ گیا۔