الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے

غزل


الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے

طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے

بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے

چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے

سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے


محمد احمدؔ​

9 تبصرے:

  1. کیا خوب غزل ہے احمد بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
    تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے

    جواب دیںحذف کریں
  2. چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
    پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے
    -

    جواب دیںحذف کریں

  3. طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
    ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے
    واہ بہت خُوب
    جاوید گوندل ۔ بارسیلونا، اسپین

    جواب دیںحذف کریں
  4. @فلک شیر
    @sarwataj
    @انکل ٹام
    @جاوید گوندل صاحبان

    بہت شکریہ آپ تمام احباب کی توجہ، تبصرے اور پذیرائی کا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت اعلیٰ۔۔۔ زبردست۔۔۔

    بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
    بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے

    جواب دیںحذف کریں
  6. بہت خوب احمد بھای بہت ہی اعلی بہت ہی زبردست۔ ڈھیروں داد و تحسین
    محمد ارشد۔۔ اٹک

    جواب دیںحذف کریں
  7. بہت شکریہ محمد ارشد بھائی

    آپ کی توجہ اور پذیرائی کے لئے ممنون ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں