غزل
سفر کے ساتھ مسافر کی دل لگی بھی گئی
جو شام آ گئی ، صحرا کی دل کشی بھی گئی
وہ جس پہ تکیہ کیا سر کشیدہ موجوں میں
سو اب تو ہاتھ سے وہ ناؤ کاغذی بھی گئی
وہ خامشی کہ فقط میں ہی سُن رہا تھا جسے
دُروں کا شور بڑھا اور وہ خامُشی بھی گئی
ابھی سفینہ ٴ جاں ڈوبنے ہی والا تھا
کہ سر کشیدہ سی موجوں کی سرکشی بھی گئی
ہوا بھی تِیرہ شبی کی حلیف ہی ٹھیری
سحر سے پہلے چراغوں کی روشنی بھی گئی
اگرچہ دعوے بہت تھے کہ دوست ہیں ہم بھی
پڑا جو اُن سے کبھی کام ، دوستی بھی گئی
وہ تِیرہ شب سے اکیلے ہی لڑ رہا تھا عبیدؔ
دیا بُجھا تو ہواؤں کی برہمی بھی گئی
عبید الرحمٰن عبیدؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں