غزل
ستارے دیکھتا ہوں زائچے بناتا ہوں
میں وہم بیچتا ہوں وسوسے بناتا ہوں
گراں ہے اتنا تو کیوں وقت ہے مجھے درکار
مزے سے بیٹھا ہوا بلبلے بناتا ہوں
مسافروں کا مرے گھر ہجوم رہتا ہے
میں پیاس بانٹتا ہوں آبلے بناتا ہوں
خرید لاتا ہوں پہلے ترے وصال کے خواب
پھر اُن سے اپنے لئے رت جگے بناتا ہوں
یہی نہیں کہ زمینیں میری اچھوتی ہیں
میں آسمان بھی اپنے نئے بناتا ہوں
مرے ہُنر کی تجھے احتیاج کیا ہوگی
کہ میں زمانے ہی گزرے ہوئے بناتا ہوں
محمد اظہار الحق
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں