غزل ۔ یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

غزل

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا

مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خطا ہوا

مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا

جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا

مرے ایک گوشۂ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا

مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا


مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا

ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا

اقبال عظیم

کہنے کو تو گلشن میں ہیں رنگ رنگیلے پھول

غزل

کہنے کو تو گلشن میں ہیں رنگ رنگیلے پھول
روشن آنکھیں عنقا ہوں تو سارے رنگ فضول

خوشیاں اپنی الم غلم، غم بھی اول جلول
شکر کہ پھر بھی دامن میں ہیں کچھ کانٹے کچھ پھول

دل میں کچھ اور منہ پر کچھ تو سب باتیں بے کار
ہو ناپید اخلاص کی خوشبو تو سب پھو ل ببول

کیا تم کو معلوم ہے تم نے کیوں کر مجھ کو مارا
آج کہیں یہ پوچھ رہا تھا قاتل سے مقتول

یارو! اس سے اخذ کروں میں آخر کیا مفہوم
اُس نے خط کے ساتھ پرویا اک کانٹا، ایک پھول

پوچھو تو یہ لوگ کوئی بھی کام نہیں ہیں کرتے
دیکھنے میں جو لگتے ہیں ہر دم، ہر پل مشغول

سُندر لب جب پیار سے زرّیں لاکٹ چومتے ہیں
مہر و وفا کے جذبے کتنے لگتے ہیں مجہول

کاش ہمیں بھی آوارہ گردی کی مہلت ملتی
قریہ قریہ خاک اُڑاتے بستی بستی دھول

اس نے کسی سے کہا نہیں وہ شعر بھی کہتا ہے
اِسی لئے تو لوگ سمجھتے ہیں اُس کو معقول

تم کو احمدؔ شعر و سخن کی کیسے چاٹ لگی
شہر میں تو کچھ اور بھی ہوں گے تنہا اور ملول

محمد احمدؔ


احسان دانش کی دو خوبصورت غزلیں

احسان دانش کی دو خوبصورت غزلیں

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے

بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے

کوئی نسیم کا نغمہ کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے

خدا نہ کردہ زمیں پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے

اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لئے

ترے سلیقۂ ترتیب نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لئے

کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لئے

یہ شعبدے ہی سہی کچھ فسوں گردوں کو بلاؤ
نئی فضا میں ستارے اچھالنے کے لئے

ہے صرف ہم کو ترے خال و خد کا اندازہ
یہ آئنے تو ہیں حیرت میں ڈالنے کے لئے

نہ جانے کتنی مسافت سے آئے گا سورج
نگار شب کا جنازہ نکالنے کے لئے

میں پیش رو ہوں اسی خاک سے اگیں گے چراغ
نگاہ و دل کے افق کو اجالنے کے لئے

فصیل شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لئے

کنوئیں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں اے دانشؔ
کمند تھی جو مناروں پر ڈالنے کے لئے

****

پُرسشِ غم کا شکریہ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی، درد ہے زندگی نہیں

دور تھا اک گزر گیا، نشہ تھا اک اُتَر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بے رُخی نہیں

تیرے سوا کروں پسند، کیا تیری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں، قیمتِ بندگی نہیں

لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے، وقت نہ وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقیں کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں

دل کی شگفتگی کے ساتھ، راحتِ مےکدہ گئی
فرصتِ مہ کشی تو ہے، حسرتِ مہ کشی نہیں

زخم پہ زخم کھا کے جی، اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر، لبوں کو سی، عشق ہے دل لگی نہیں

دیکھ کے خشک و زرد پھول، دل ہے کچھ اس طرح ملول
جیسے تری خزاں کے بعد، دورِ بہار ہی نہیں

احسان دانش

مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں ۔ انور شعور

غزل

مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں
کوئی اپنے سوا ہوں  میں، کوئی اپنے سوا تھا میں

نہ جانے کون سا آتش فشاں تھا میرے سینے میں
کہ خالی تھا بہت  پھر بھی دھمک کر پھٹ پڑا تھا میں

تو کیا میں نے نشے میں واقعی یہ گفتگو کی تھی
مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا جو سوچتا تھا میں

خود اپنے خول میں گُھٹ کر نہ رہ جاتا تو کیا کرتا
یہاں اک بھیڑ تھی جس بھیڑ میں گم ہو گیا تھا میں

نہ لُٹنا میری قسمت  ہی میں  تھا لکھا ہوا ورنہ
اندھیری رات تھی اور بیچ رستے میں کھڑا تھا میں

گزرنے کو تو مجھ پر بھی عجب اک حادثہ گزرا
مگر اُس وقت جب صدموں کا عادی ہوچکا تھا میں

میں کہتا تھا سُنو سچائی تو خود ہے صلہ اپنا
یہ نکتہ اکتسابی تھا مگر سچ بولتا تھا میں

تجھے تو دوسروں سے بھی اُلجھنے میں تکلّف تھا
مجھے تو دیکھ، اپنے آپ سے اُلجھا ہوا تھا میں

خلوص و التفات و مہر، جو ہے، اب اُسی سے ہے
جسے پہلے نہ جانے کس نظر سے دیکھتا تھا میں

جو اَب یوں میرے گردا گرد ہیں، کچھ روز پہلے تک
اِنہی لوگوں کے حق میں کس قدر صبر آزما تھا میں

بہت خوش خلق تھا میں بھی مگر یہ بات جب کی ہے
نہ اوروں ہی سے واقف تھا، نہ خود کو جانتا تھا میں

انور شعورؔ