تیز رَو ہے زندگی ، رفتار آہستہ کرو

غزل

ذہن و دل کو رُوح سے کچھ دیر وابستہ کرو
تیز رَو ہے زندگی ، رفتار آہستہ کرو

سامنے ہوگی جواباً خود گلابوں کی ہنسی
غم کے لہجے کو ذرا کچھ اور شائستہ کرو

مانگتی ہے زندگی باہوش رہنے کا ثبوت
گاہ چونکو، گاہ لغزش کوئی دانستہ کرو

قول و اقرارِ محبت کا کہاں اب وقت ہے
کتنے ہنگامے کھڑے ہیں بات آہستہ کرو

رقص و عکس و رنگ ہو، کوئی تماشا تو بنے
آئینے کو پھر کسی اِک رُخ سے وابستہ کرو

ذکاءالدین شایاں


مظفر حنفی کی دو نظمیں

نئے نظریے کی تخلیق   


کانچ کی رنگین ٹؤٹی چوڑیوں کو
آئینے کے تین ٹکڑوں  میں 
کسی بھی ڈھنگ سے رکھ دو
نیا خاکہ بنے گا
جس میں اک ترکیب ہوگی
لاکھ جھٹکے دیجئے
ہر بار یہ ترکیب اک ترکیبِ نو میں ہی ڈھلے گی
جب بھی کچھ ٹوٹے ہوئے لوگوں میں
اپنے تجرباتِ خام کے قصّے چھڑیں گے
اِک نظریہ جنم لے گا


صورِ اسرافیل   


اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو
لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک دو
اپنے بچوں کی جانب سے منہ پھیر لو
اس گھڑی بیویوں کی نہ پرواہ کرو
راہ میں دوستوں کی نظر سے بچو
اس سے پہلے کے تعمیل میں دیر ہو
سائرن بج رہا ہے چلو دوستو


*******

ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے ۔ قیس فریدی

غزل


ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے
جیسے کسی غریب کا خستہ مکاں گرے

مانا کہ اے ہوا تُو نہیں گن سکی مگر
دیکھا تو ہوگا پات کہاں سے کہاں گرے

پہلے ہی زخم زخم ہے دھرتی کا انگ انگ
پھر کیا ضرور ہے کہ یہاں آسماں گرے

یُوں صحنِ تیرگی میں پڑی چاند کی کرن
جیسے خموش جھیل میں سنگِ گراں گرے

ہم قیسؔ ، اپنی بھوک مٹانے کے واسطے 
صیّاد کا تھا جال جہاں پر وہاں گرے

قیس فریدی

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا ۔ عرفان صدیقی

غزل 


چراغ دینے لگے گا دھواں  نہ چھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا

زمیں چُھٹی تو بھٹک جاؤگے خلاؤں میں
تم اُڑتے اُڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا

نہیں تو برف سا پانی تمھیں جلا دے گا
گلاس لیتے ہوئے اُنگلیاں نہ چھو لینا

ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھو لینا

اُڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

مروٓتوں کو محبت نہ جاننا، عرفان
تم اپنے سینے سے نوکِ سناں نہ چھو لینا

عرفان صدیقی


میں کسی طور سُخن سازِ مثالی نہ بنا ۔ محسن احسان

غزل


میں کسی طور سُخن سازِ مثالی نہ بنا
میرؔ و غالبؔ تو کُجا مومنؔ و  حالیؔ نہ بنا

آسمانوں کے مکیں میری زمینوں کو سجا
عرشِ بے مایہ پر فردوسِ خیالی نہ بنا

پُر ہوا جام سے کچھ پہلے مرا کاسہ ٔ عمر
اے خدا شُکر ہے میں ترا سوالی نہ بنا

سیلِ گریہ سے نہ رُک پائے گا خاشاکِ مژہ
بند مضبوط ہوں دریاؤں پہ جالی نہ بنا

محسن احسان ہے درویش طبیعت انساں
اُس کا در ، در ہی سمجھ، درگہہِ  عالی نہ بنا

محسن  احسان