غزل
اپنے خونِ وفا میں نہائے ہوئے زخم اپنے بدن پر سجائے ہوئے
قاتلوں سے کہو اب نہ زحمت کریں ہم صلیب اپنی خود ہیں اُٹھائے ہوئے
ہر زباں بے سُخن، ہر جبیں پر شکن وحشتِ رقص میں انجمن انجمن
اتنا غمناک ماحول ہے شہر کا اک زمانہ ہوا مُسکرائے ہوئے
معتبر کیا ہے اور کیا ہے نا معتبر، اپنا اپنا خیال اپنی اپنی نظر
لوگ کانٹوں سے بچتے ہیں گلزار میں، ہم گلوں سے ہیں دامن بچائے ہوئے
ایک کیا سو نشیمن ہوں میرے اگر، وہ بھی قربان گلزار کے نام پر
آشیاں کا مجھے غم نہیں ، غم یہ ہے، پھول شعلوں کی زد میں ہیں آئے ہوئے
سطحِ دریا ہے چشمِ تماشائی میں، جھانکتا کون ہے دل کی گہرائی میں
اشک آنکھوں میں اس طرح محفوظ ہیں، جیسے موتی صدف ہو چھپائے ہوئے
رہگزاروں کے سب نقش معدوم ہیں، پیڑ ہیں بھی تو سائے سے محروم ہیں
جن کو آتا ہے شیشہ گری کا ہنر، سنگ ہاتھوں میں ہیں وہ اُٹھائے ہوئے
ساغرِ شب کو لبریز کر دیں گے ہم، صبح کو رنگ آمیز کر دیں گے ہم
ضد پہ قائم ہیں اپنی ہوائیں اگر، مشعلِ جاں ہیں ہم بھی جلائے ہوئے
ہے اسی شہر کا نام شہرِ طرب، لوگ بھی ہیں عجب، شہر بھی ہے عجب
پیار ہونٹؤں پہ ہے، پھول ہاتھوں میں ہے، آستیں میں ہیں خنجر چھپائے ہوئے
دل کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں گے ہم، اب فریبِ تبسم نہ کھائیں گے ہم
زندگی بھر کا اعجازؔ ہے تجربہ ، دوست دشمن ہیں سب آزمائے ہوئے
اعجاز رحمانی