غزل
دن ہو کہ رات، کنجِ قفس ہو کہ صحنِ باغ
آلامِ روزگار سے حاصل نہیں فراغ
رغبت کسے کہ لیجئے عیش و طرب کا نام
فرصت کہاں کہ کیجئے صہبا سے پُر ایاغ
ویرانہء حیات میں آسودہ خاطری
کس کو مِلا اس آہوئے رم خوردہ کا سُراغ
آثارِ کوئے دوست ہیں اور پا شکستگی
خوشبوئے زلفِ یار ہے اور ہم سے بے دماغ
کس کی جبیں پہ ہیں یہ ستارے عرق عرق
کس کے لہو سے چاند کا دامن ہے داغ داغ
کرتے ہیں کسبِ نور اسی تیرگی سے ہم
انجمؔ ہیں دل کے داغ کہر ہائے شب چراغ
انجم رومانی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں