دلِ من مُسافرِ من

دلِ من مُسافرِ من

مرے دل، مرے مُسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سُراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بَر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بَلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت 
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا

فیض احمد فیضؔ

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک  گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا

گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا

شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا

حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا

اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا

آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا

کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا 


******

کشتِ اُمّید بارور نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہُوئی

ہم مُسافر تھے دھوپ کے ہم سے
ناز برداریِ شجر نہ ہُوئی

مُجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف 
سب نے دیکھا مِری نظر نہ ہُوئی

گھر کی تقسیم کے سِوا  اب تک 
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہُوئی

نام میرا تو تھا سرِ فہرست 
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہُوئی

جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گُزری اُسے خبر نہ ہُوئی

لیاقت علی عاصم 

مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی - منیر نیازی

غزل 

آگئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

کُھل گئے شہرِ غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی

کون تھا تُو کہ پھر نہ دیکھا تُجھے
مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی

خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہِ شب تاب کے نکلتے ہی

تُو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکسِ دیوار کے بدلتے ہی

خون سا لگ گیا ہے ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی

منیر نیازی

ماہِ منیر سے انتخاب

اھے وائے ۔۔۔۔ رشید احمد صدیقی

اھے وائے 
رشید احمد صدیقی کی تحریر "پاسبان" سے اقتباس

سفر شروع ہوا راستے میں ایک درگاہ پڑتی تھی زیارت کے لئے اُتر پڑا ۔ اسباب سرائے میں رکھ کر درگاہ پہنچا۔ جو توقعات بن دیکھے قائم کی تھیں ان میں مایوسی ہوئی اور  وہاں کے پاسبانوں کو دیکھ کر جان و مال کا اتنا نہیں تو آبرو جانے کا اندیشہ ضرور ہوا۔  لمبی چوڑی عمارت ،گندگی، گداگر،  تنو مند ترش رو مجاور ہر طرف کہنگی اور زوال کے آثار۔ سمجھ میں نہ آیا کیا کروں۔ خیال آیا  قوالی سے کام لوں لیکن اشعار یاد نہ گانے سے واقفیت۔ تالی بجانے کی مشق کالج میں کی تھی لیکن کالج کی تالی اور مزار کی تالی میں بڑا فرق تھا اور اس فرق کو خادموں اور مجاورں نے محسوس کر لیا تو یہاں کوئی ایسا تو ہے نہیں جو اس کا قائل ہو کہ تالی دونوں ہاتھ سے بج سکتی ہے ممکن ہے تالی کا پرچہ ترکیب استعمال کچھ اور ہی ہو مثلاً  ایک ہی ہاتھ سے بجائی جاتی ہو خیال آیا کہ گو اشعار تالی اور قوالی وغیرہ کچھ نہیں آتی لیکن قوالی کی  ایک چیز آتی ہے۔ یعنی  "اھے وائے!" 


چنانچہ کچھ سوچتا کچھ گنگناتا بہت کچھ ڈرتا ہوا داخلِ عمارت ہوا۔ پاسبان نے ایسی پاٹ دار آواز میں للکارا کہ ساری عمارت گونج گئی اور میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ "قدم درویشان ردِّ بلا"  ۔ پھر نہایت لجاجت سے فیس داخلہ طلب کی۔ بات سمجھ میں نہ آئی اس لئے کہ میرے قدم ردِّ بلا تھے تو اس کی فیس کیسی اور کسی دوسرے کے تھے تو اس کا اعلان مجھے دیکھ کر کیوں !  پھر سوچنے لگا کہ ممکن ہے شکل کے اعتبار سے میں درویش ہوں قدم کے اعتبار سے یہ لوگ یا کوئی اور بزرگ ردِّ بلا ہوں۔ عرض کیا جناب پیسے ہوتے تو وطن ہی کیوں چھوڑتا۔ اس اُمید پر حاضر ہوا ہوں کہ حضرت کے فیض سے کچھ پیسے مل جائیں گے۔

فرمایا آپ بڑے آدمی ہیں اللہ نے بہت کچھ دیا ہے، عرض کیا یہ آپ کا حسنِ ظن ہے لیکن رائے صحیح نہیں قائم فرمائی۔ میں مفلس عیال دار ہوں اُسی اعتبار سے مقروض اور مریض بھی۔ کہنے لگے بجا ۔ لیکن جب تک کچھ خیر خیرات نہ کیجے گا حضرت کی خوشنودی کیوں کر حاصل ہوگی۔  کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ دبی  زبان سے عرض کی جناب یہ مزار شریف ہے یا امپیریل بنک! پاسبان نے کچھ اس طرح گھور کر دیکھا کہ مارے خوف کے دل سینے میں اور چونی جیب میں لرزنے لگی۔ چوّنی دربان کی خدمت میں پیش کی اور اھے وائے کہتا ہوا چار سورماؤں کی حفاظت یا حراست میں آگے بڑھا۔ ایک مقام پرطائفہ  کھڑا ہو گیا۔ حکم ہوا حضرت نے یہاں وضو کیا تھ۔ اکنّی رکھ دو ۔ اکنّی کے ساتھ ایک بزرگ بھی تخفیف میں آگئے۔ دوسری منزل پر بتایا گیا کہ حضرت نے یہاں چلّہ کھینچا تھا آٹھ آنے نذر کے پیش کرو۔ وہ بھی پیش کر دیئے ، ایک صاحب اور کم ہو ئے۔ ایک اور مقام پر پہنچے ارشاد ہوا  بارہ آنے رکھ دو حضور نے یہاں دعا مانگی تھی۔  تم بھی دعا مانگ لو۔  پوچھا کیا آپ بتاسکتے ہیں حضور نے کیا دعا مانگی تھی کہنے لگے یہی مانگی ہوگی کہ خدا مسلمانوں کو جملہ آفات و بلیّآت  سےمحفوظ رکھے۔ میں نے کہا اہے وائے، وہ دعا کب مقبول ہوئی کہ میں بھی مانگوں۔ اس پر دوست بہت برہم ہوئے اور کچھ تعجب نہ ہوتا اگر نقصِ  امن کی نوبت آجاتی ۔ میں نے مطلوبہ رقم ان کے ہاتھ پر رکھ دی جس کا کرشمہ یہ تھا کہ اُن کا ولولہ ِجہاد مزاج شریف اور دعائے لطیف پر ختم ہوگیا۔ 

پوچھنے لگے حضرت کا آنا کہاں سے ہوا۔ عرض کیا ٹمبکٹو سے۔  فرمایا وہاں مزارات ہیں ؟ کہاں جہاں کہیں مسلمان ہوں گے مزارات بھی ہوں گے۔ پوچھا متولی اور سجادہ نشین کون ہیں۔ کہاں فی الحال تو یہ خاکسار ہی ہے اور اس وقت مزارات کے مسائل پر تحقیقات کرنے ہندوستان آیا ہے۔ پوچھا اوقاف کی آمدنی کیسی ہے ۔ جواب دیا کافی سے زائد ہے۔ کہنے لگے اگر میری خدمات کی ضرورت ہو تو حاضر ہوں، یہاں حالات تو نہایت زار ہے۔  متولی صاحب پر ایک عورت اور ایک انگریز کا بڑا اثر ہے۔ مزار شریف کی ساری آمدنی انہی پر صرف ہوتی ہے۔ ہم خدام تو بس اُسی روکھی پھیکی پر بسر کرتے ہیں جو آپ لوگوں سے مل جاتی ہے۔ عرض کیا، کیا کیجے گا  انگریز  اور  عورت سے کسے اور کہاں مفر ہے۔ 

ایک دوسرے خادم کے ہمراہ آگے بڑھا اور ایک کھڑکی کے قریب پہنچا ساتھی نے کہا ایک روپیہ نذر کیجے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر دعا مانگئے قبول ہوگی۔  عرض کیا یہ ایک روپیہ حاضر ہے۔ دعا مانگنے کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔ کہنے لگے نہیں جناب یہ یہاں کا دستور ہے آپ مزار شریف کی توہین کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ بات نہیں ہے حواس پر قابو نہیں الٹی سیدھی دعا مانگ گیا تو کیا ہوگا۔ کہنے لگے دعا مانگنی پڑے گی۔ اس آستانے سے کوئی محروم نہیں گیا۔ مجبوراً کھڑکی  میں منہ ڈال کر کھڑا ہوگیا۔ رفیق نے للکارا دعا  مانگو اور ہم سے کیا پردہ باآوازِ بلند مانگو۔ عرض کیا اس سے ممکن ہے صاحبِ مزار کے آرام میں خلل پڑے گا ۔ فرمایا اس کا خیال نہ کرو۔ ہم سنبھال لیں گے۔ میں نے دعا مانگی۔  "اے برگزیدہ روح دعا فرمائیں کہ اس گنہگار اور بدبخت کو آج سے پھر کسی مزار یا مجاور سے سابقہ نہ پڑے۔"

یاد نہیں آتا کہ کھڑکی کے اندر سے خود گردن باہر نکالی یا اس کے لئے اپنے رفیق کا احسان مند ہونا پڑا۔ اہے وائے کرتا مزار شریف سے تنہا باہر آیا۔ بعض فقرا اور مساکین نے ہمدردی کرنا چاہیے لیکن آخری کرم فرما نے وہیں سے للکارا "خبردار وہابی ہے!" سرائے پہنچا تو سامان غائب۔  اہے وائے۔

ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید

اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید

اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید

خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید

تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید

موجہ ٴ رنگ بیاباں سے چلا
یا کوئی آبلہ پا تھا شاید

رُت کا ہر آن بدلتا لہجہ
ہم سے کچھ پوچھ رہا تھا شاید

کیوں ادا ؔ کوئی گریزاں لمحہ 
شعر سننے کو رُکا تھا شاید


******

حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے

رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے

ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے

کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے

تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

آشنا آشنا پیام آئے
اجنبی اجنبی زمینوں سے

جی  کو آرام آ گیا ہے  اداؔ
کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے

اداؔ جعفری

انسان اور وقت

انسان اور وقت کا ساتھ بہت پُرانا ہے ۔ ایک دور تھا کہ وہ سور ج اور ستاروں کی چال دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب وقت انسان کے ساتھ تھا لیکن شناشائی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی ۔ آج بھی انسان کبھی وقت کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کبھی تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ 

ہزارہا سال کے تجربے اور ساتھ کے باوجود انسان ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ لاکھ خود کو طرم خان سمجھنے لگے لیکن وقت ہمیشہ اُس کے اندازوں کو غلط ثابت کردیتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ۔۔۔ ۔ 

سوال یہ ہے کہ انسان وقت سے اس قدر اُلجھتا کیوں ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ زندگی اور موت ۔۔۔ ؟ ہاں ! کیا زندگی وقت کے سوا بھی کچھ ہے؟ پھر وہ وقت سے کیوں نہ اُلجھے ۔ زندگی ایک مہلت ہی تو ہے ۔ پیدائش سے لے کر موت تک کی مہلت۔ شاید اسی لئے انسان وقت سے ہمہ وقت برسرِ پیکار رہتا ہے۔ اکثر شاکی رہتا ہے اور کبھی کبھی تو اپنی کوتاہیوں کے لئے بھی وقت ہی کو قصوروار ٹہھراتا ہے۔ 

وقت کی پیمائش بھی ہمیشہ انسان کے لئے ایک مسئلہ ہی رہی ہے سورج اور ستاروں کی چال سے لے کر فراقِ یار کی طوالت اور وصل کی مختصر گھڑیاں۔ غرض وقت کو ناپنے کے سب پیمانے ایک وقت تک ہی انسان کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر انسان سوچتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے جتنا پانی بہہ گیا، وقت کے لئے بنائے گئے اُس کے پیمانے اُس کا ادراک ہی نہیں کر سکے۔ 

ڈھلتی عمر بھی انسان کو وقت کے گزرنے سے آگاہ کرتی ہے۔ کسی دن اچانک ہی کسی کا چھوٹا سافقرہ یا آئنے کی بے تکلفی اُسے چونکا دیتی ہے۔ جیسے وہ برسوں کی نیند سے بیدار ہوا ہو۔ وہ سوچتا ہے کہ وقت کی اُنگلی پکڑے وہ کہاں سے کہاں تک آگیا ہے ۔ یہاں تک کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر اُسے اپنا نقطہء آغاز تک نظر نہیں آتا۔ اُسے لگتا ہے جیسے وقت ریت کی طرح اُس کی مُٹھی سے پھسل گیا ہو۔ وقت کا ریت کی طرح ہتھیلی سے پھسل جانا بھی کیا ہی خوب تمثیل ہے ۔ شاید پہلی بار جب انسان کو یہ تشبیہہ سوجھی ہو گی تو اُسے ریت گھڑی بنانے کا خیال آیا ہوگا۔ 

آپ نے ریت گھڑی اور کہیں نہیں تو کمپیوٹر میں انتظار کی علامت کے طور پر ضرور دیکھی ہوگی۔ ریت گھڑی سے مستقل ریت کے ذرے زوال پذیر نظر آتے ہیں یہاں تک کہ وقت کی جھولی کے سب سکّے نذرِ خاک ہوجاتے ہیں۔ ریت گھڑی تو پلٹ کر پھر سے کام پر لگادی جاتی ہے لیکن انسان کی زندگی ریگِ صحرا کی ایک مُٹھی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ 

آج کا دور ڈجیٹل گھڑیوں سے بھی آگے کا ہے ، آج ہم ایک ثانیے کے بھی ہزار ویں حصے کی پیمائش باآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے احساس ڈجیٹل نہیں ہوسکا ۔ احساس اب بھی وہی ہے ۔ اب بھی انسان کبھی وقت کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو وقت کی قید سے آزاد کرالے۔ فراق کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں اور وصل میں وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے:

تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں
وقت کے پاؤں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے​

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وقت از خودمختصر یا طویل نہیں ہوتا بلکہ انسان کا احساس اُسے درازی یا تنگی کی خلعت عطا کرتا ہے۔ کمرہء امتحان کے تین گھنٹے اور انتظار کے تیس منٹ کو اگر میزانِ احساس میں رکھا جائے تو شاید کوئی بھی پلڑا ہار ماننے کو تیار نہ ہو۔ 

یہ بھی سنتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔ دیکھا جائے تو یہ بات بھی خوب ہے کہ خوشی کی گھڑیوں میں انسان کو مغرور نہیں ہونے دیتی اور مشکل میں مایوسی سے بچا لیتی ہے۔ یعنی انسان کے برتاؤ کو اعتدال کے سکون بخش مستقر میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اس بات سے مشکل میں حوصلہ ملتا ہے اور اُمید کی لو فروزاں ہو جاتی ہے کہ کبھی تو وقت موافق بھی ہوگا۔ وقت کبھی انسان کے موافق ہوتا ہے تو کبھی مخالف اور ہر دو صورتوں میں یہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور جو بات وقت انسان کو سکھاتا ہےاُسے بھولنا ممکن نہیں ہوتا۔ 

ہمارے ہاں وقت کا لفظ بہت ہی وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ یہ کبھی محض ایک ساعت کے لئے استعمال ہوتا ہے تو کبھی یہ ایک عہد کا استعارہ بن جاتا ہے۔ وقتِ رخصت، وصل کی ساعت، ہجر کی گھڑیاں، رنج کا موسم اور گلابوں والی رُت سب کے سب وقت کے ہی بہروپ ہیں ۔ اچھا وقت یوں کٹ جاتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ بقول پروین شاکر:

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
اور اگر زندگی رنج و محن کی تصویر ہو جائے تو شاعر کہہ اُٹھتا ہے:

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جو لوگ وقت کے ساتھ چلنا سیکھ لیتے ہیں وہ مستقل خود کو بدلتے رہتے ہیں لیکن وقت رُکنا نہیں جانتا اور اکثر انسان وقت کے تعاقب میں ہانپ جاتا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد "وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ۔۔۔ !" 

وقت انسان کے ساتھ جو بھی کرے لیکن انسان کو ہمیشہ یہی سبق دیا جاتا ہے کہ وہ وقت کی قدر کرے اور وقت کے دامن میں کارہائے مثبت و مفید کے پھول کشید کرتا رہے ، یقیناً ایک نہ ایک دن منظر اور پس منظر دونوں رنگ و بو سے معمور ہو جائیں گے۔ 

سب سے آخری بات یہ کہ وقت بڑی ظالم شے ہے اور وہ ایسے کہ اگر آپ خود وقت کے قصیدے بھی پڑھتے رہیں تب بھی یہ اپنی روش سے باز نہ آئے گا اور پُھر سے اُڑ جائے گا اور آپ کو کفِ افسوس ملنے کے مزید وقت درکار ہوگا۔ سو اس گفتگو کو یہیں سمیٹتے ہوئے آخر میں کچھ منتخب اشعار کہ جن میں وقت اور انسانی احساسات کو خوبصورتی سے بُنا گیا ہے۔ 

ایک غزل کے کچھ اشعار :

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اُس نے دیکھا مجھے، اُس نے چاہا مجھے، اُس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے

کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آگیا، ذہن میں اُس کے جو میرا نام آگیا
بعد مدّت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے

زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروّت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے​

کچھ اشعار ایک اور غزل سے:

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

ہم نے علاج زخم دل تو ڈھونڈ لیا لیکن
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھولنے میں وقت تو لگتا ہے
کچھ اشعار فرحت عباس شاہ کے:

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے​

کچھ نوشی گیلانی کے:

کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

اُس نے ہنس کر دیکھا تو مُسکرادیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے​

جون ایلیا:

آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا

ابنِ انشاء:

ساعتِ چند کے مسافر ہیں 
کوئی دم اور گفتگو لوگو! ​

اور بھی بہت سے ہیں لیکن کسی اور "وقت"۔ 

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو ۔ نور بجنوری

غزل

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو
ہم اصولوں کی تجارت نہیں کرتے یارو

خونِ حسرت ہی سہی، خونِ تمنّا ہی سہی
ان خرابوں میں کوئی رنگ تو بھرتے یارو

پھر تو ہر خاک نشیں عرشِ بریں پر ہوتا
صرف آہوں سے مقدر جو سنورتے یارو

سولیاں جُھوم کے ہوتی ہیں ہم آغوش جہاں
کاش ہم بھی اُنہی راہوں سے گُزرتے یارو

سر کہیں، سر پہ سجائی ہوئی دستار کہیں
زندگی کے لئے یوں بھی نہیں مرتے یارو

چاند تسخیر کیا، قلب نہ تسخیر کیا
اس  جزیرے میں بھی اک بار اُترتے یارو

نور بجنوری

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا ۔ اُمید فاضلی

غزل

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے 
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور  اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

اُمید فاضلی

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں 
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں 

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا 

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں 

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے 

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں 
ان کے صحن میں سورج  دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد

رنگ ہے دل کا مرے

رنگ ہے دل کا مرے

تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر،  راہگزر راہگزر،  شیشہ مَے شیشہ مے
اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے ، خون جگر ہونے تک
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا،خس وخار کا رنگ
سُرخ پُھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ ، لہو رنگ ، شبِ تار کا رنگ
آسماں ، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن ،کوئی دُکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لخطہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ ،کوئی رُت ،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو تھی
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے

فیض احمد فیض

نور بجنوری کی دو خوبصورت غزلیں



روح چٹخی ہوئی، جسم دُرکا ہوا
دستِ سائل بھی، کاسہ بھی ٹوٹا  ہُوا

میرے باہر زمان و مکاں نوحہ گر
میرے اندر کوئی مجھ پہ ہنستا  ہُوا

ہر نظر نیم جاں عقل کے زہر سے
ہر صحیفے میں اک سانپ بیٹھا  ہُوا

وحشیوں کو بگولے اُڑا لے گئے
شہر کی طرح صحرا بھی سُونا  ہُوا

ایک اندھی کرن بین کرنے لگی
قریہ ٴ دل میں شاید سویرا  ہُوا

کوہکن، تیشہ و سنگ سے بے نیاز
قیس، پھولوں کے بستر پہ سویا  ہُوا

اس جنم میں بھی جسموں کی منڈی لگی
اس جنم میں بھی چاہت کا سودا ہُوا

تیر بن کر لگا آج احساس پر
ایک پتّہ ہواؤں میں اُڑتا ہوا


******

سر وہی، سنگ وہی، لذّتِ آزار وہی
ہم وہی، لوگ وہی، کوچہء دلدار وہی

اک جہنّم سے دھکتا ہُوا، تاحدِّ نظر
وقت کی آگ وہی شعلہء رفتار وہی

شیشہ ٴ  چشم  پہ چھایا ہُوا اک زلف کا عکس
قریہ ٴ دار وہی، سایہ ٴ دیوار وہی

عرصہ ٴ  حشر کبھی ختم بھی ہوگا کہ نہیں
وہی انصاف کی میزان، گناہگار وہی

تم سلامت رہو ، یوسف کی ضرورت کیسی
اہلِ فن! آج بھی ہے رونقِ بازار وہی

میں بھی زندہ ہوں ، ترا حُسن بھی تابندہ ہے
چاند سے زخم  وہی، پھول سی مہکار وہی

نورؔ میں اب بھی محبّت کو عبادت جانوں
ہے مرے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار وہی

نور بجنوری

رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں



رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں


ایک ہی  آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ 
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ

وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ

خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ

تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ

زندگی دیکھ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ

پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ


******


اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

خلقتِ شہر یونہی خو ش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے ، مجھے ظرفِ پذیرائی دے 

جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی نہیں طعنہ ٴ رسوائی دے

بارِ دنیا نہ سہی، بارِ صداقت اُٹھ جائے
ناتواں جسم کو اتنی تو توانائی دے

مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے

رضی اختر شوق

ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو

غزل

ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو
جیسے جنگل میں رنگ و بُو لوگو

ساعتِ چند کے مسافر سے
کوئی دم اور گفتگو لوگو

تھے تمہاری طرح کبھی ہم لوگ
گھر ہمارے بھی تھے کبھو لوگو

ایک منزل سے ہو کے آئے ہیں
ایک منزل ہے رُوبُرو لوگو

وقت ہوتا تو آرزو کرتے
جانے کس شے کی آرزو لوگو

تاب ہوتی تو جتسجُو کرتے
اب تو مایوس جستجُو لوگو

ابنِ انشا

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

غزل

تری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے
اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

اب گلہ کیا کہ ہوا ہوگئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ یہ سہل طلب تیرے نہیں

ہو نہ ہو دل پہ کوئی بوجھ ہے بھاری ورنہ
بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

افتخار عارف

دلِ سوختہ کبھی بول بھی

کبھی بول بھی (نظم)

دلِ سوختہ
کبھی بول بھی
جو اسیر کہتے تھے خود کو تیری اداؤں کے وہ کہاں گئے
جو سفیر تھے تیر ی چاہتوں کی فضاؤں کے وہ کہاں گئے
وہ جو مُبتلائے سفر تھے تیرے خیال میں
وہ جو دعویدار تھے عمر بھی کی وفاؤں کے وہ کہاں گئے
کبھی کوئی راز تو کھول بھی
کبھی بول بھی

دلِ نا خدا
کبھی بول بھی
جو تیرے سفینۂ دار و غم کے سوار تھے
جو تیرے وظیفہء چشمِ نم پہ نثار تھے
وہ جو ساحلوں پہ اُ تر گئے تو پھر اُس کے بعد پلٹ کے آئے کبھی نہیں
تیری لہر لہر پہ جن کے نقش و نگار تھے
کسی دن ترازوئے وقت پر
اُنہیں تول بھی
کبھی بول بھی

وہ جو تیرے نغمۂ زیرو بم کے امین تھے
جو ترے طفیل بلندیوں کے مکین تھے
و ہ جو معترف تھے تری نگاہِ نیاز کے
تمھیں جن پہ سو سو یقین تھے
وہ چکا گئے ترا مول بھی
کبھی بول بھی
کبھی بول بھی، دلِ سوختہ، دلِ نا خدا، دلِ بے نوا، کبھی بول بھی

فرحت عباس شاہ

سچ کہا اے صبا! صحنِ گل زار میں دل نہیں لگ رہا

 لیاقت علی عاصم کی خوبصورت غزل

******جا و ید  صبا کی نذر******


سچ کہا اے صبا! صحنِ گل زار میں دل نہیں لگ رہا
سایہٴ سبز میں صحبتِ یار میں دل نہیں لگ رہا

رُوپ کیا شہر کا، شکل کیا گاؤں کی، دھوپ اورچھاؤں کی
ایک تکرار ہے اور تکرار میں دل نہیں لگ  رہا

وہ بدن اب کہاں، پیرَھن اب کہاں، بانکپن اب کہا ں
سب بیاباں  ہُوا، تیرے  بازار میں دل نہیں لگ رہا

میرے  تو رنگ ہی اُڑ گئے جب کہا ایک تصو یر نے
اب مجھے پھینک دو، میرا دیوار میں دل نہیں لگ رہا

صر صرِ وقت آئے  بکھیرے مجھے چار اطراف میں
اب عناصر کے اس ٹھوس انبار میں دل نہیں لگ رہا

اے پرندو  چلو، اے درختو چلو، اے  ہواؤ چلو
گرد  ہی گرد  ہے، کوچہ ٴ یار میں  دل نہیں لگ رہا

کیا کتابیں مری، کیا مری شاعری، رائیگا ں رائیگاں
میر و سودا و غالب کے اشعار میں دل نہیں لگ رہا

بشکریہ : محترم سید انور جاوید ہاشمی

زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے​

غزل​
زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے​
میں نے دیکھا کمال ہوتے ہوئے​
ہجر کی دھوپ کیوں نہیں ڈھلتی​
جشنِ شامِ وصال ہوتے ہوئے​
دے گئی مستقل خلش دل کو​
آرزو پائمال ہوتے ہوئے​
لوگ جیتے ہیں جینا چاہتے ہیں​
زندگانی وبال ہوتے ہوئے​
کس قدر اختلاف کرتا ہے​
وہ مرا ہم خیال ہوتے ہوئے​
پئے الزام آ رُکیں مجھ پر​
ساری آنکھیں سوال ہوتے ہوئے​
آج بھی لوگ عشق کرتے ہیں​
سامنے کی مثال ہوتے ہوئے​
خود سے ہنس کر نہ مل سکے احمدؔ​
خوش سخن، خوش خصال ہوتے ہوئے​
محمد احمدؔ​

بھائی کی محبت کے عکاس دو نوحے ۔ فیض احمد فیض اور مصطفیٰ زیدی کے قلم سے


کہنے کو تو یہ دنیا ایک سرائے کی طرح ہی ہے کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ساتھ زندگی بسر کرنے والے  اکثر دلوں میں گھر کر جاتے ہیں  اور اُن کی عارضی یا دائمی جدائی دلوں میں گھاؤ ڈال جاتی ہے۔ پھر اگر ایسے لوگ آپ کے قریبی ہوں۔ آپ کے اہلِ خانہ میں سے ہوں تو یہ زخم اور بھی گہرا ہوتا ہے کہ اپنوں کی جُدائی بھی اپنوں کی محبت کی طرح بے مثال ہوتی ہے۔ 

رفتگاں کی یاد اور دکھ اردو شاعری کا ایک خاص حزنیہ موضوع ہے اور شعراء نے اس  کا حق بھی خوب ادا کیا ہے۔ ذیل میں دو نظمیں پیش ہیں جو دو  بے مثال شعراء نے اپنے بھائی کی وفات پر لکھی۔ پہلی نظم تو فیض کی مشہورِ زمانہ "نوحہ"  ہے جبکہ دوسری نظم مصطفیٰ زیدی کی "اپنے مرحوم بھائی مجتبیٰ زیدی کے نام" ہے۔  دونوں ہی نظمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور محبت اور  غم کی وہ کیفیات رکھتی ہیں کہ جنہیں دل سے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔  

نوحہ 

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
کیا کروں بھائی ، یہ اعزاز میں کیونکر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیضوں کا حساب
آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب
آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

فیض احمد فیض

۔۔۔۔۔۔

اپنے مرحوم بھائی  مجتبیٰ زیدی کے نام 

تم کہاں رہتے ہو اے ہم سے بچھڑنے والو!
ہم  تمھیں ڈھونڈنے جائیں تو ملو گے کہ نہیں
ماں کی ویران نگاہوں کی طرف دیکھو گے؟
بھائی آواز اگر دے تو سُنو گے کہ نہیں

دشتِ غربت کے بھلے دن سے بھی جی ڈرتا ہے
کہ وہاں کوئی نہ مونس نہ سہارا ہوگا
ہم کہاں جشن میں شامل تھے جو کچھ سُن نہ سکے!
تم نے ان زخموں میں کس کس کو پکارا ہوگا

ہم تو جس وقت بھی، جس دن بھی پریشان ہوئے
تم نے آکر ہمیں محفوظ کیا، راہ دکھائی
اور جب تم پہ بُرا وقت پڑا تب ہم لوگ
جانے کس گھر میں ،کہاں سوئے ہوئے تھے بھائی

ہم تری لاش کو کاندھا بھی نہ دینے آئے
ہم نے غربت میں تجھے زیرِ زمیں چھوڑ دیا
ہم نے اس زیست میں بس ایک نگیں پایا تھا
کسی تربت میں وہی ایک نگیں چھوڑ دیا

(نا مکمل ۔۔۔۔۔     وہ نوحہ جو کبھی مکمل نہیں ہو سکتا)

مصطفیٰ زیدی

رشک بھرے دو سوال

کاسنی رنگ کا 
وہ جو چھوٹا سا پھول اُس کے بالوں میں ہے
کن خیالوں میں ہے؟

اور آویزے جو 
جھلملاتے ہوئے اُس کے کانوں میں ہیں
کن اُڑانوں میں ہیں؟

محمد احمدؔ

محرومِ تماشا​

محرومِ تماشا​

از محمد احمد​


شام ڈھل چکی تھی ۔ چائے کی ہوٹل پر حسبِ معمول رونق میں اضافہ ہو چکا تھا ۔ لوگ مختلف ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھےاور دن بھر کی تھکن کے مارے دکھتے بدن پر ذائقہ اور تراوت کے پھائے رکھ رہے تھے۔ یہ شہر کا ایک متوسط علاقہ تھا اور سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں کےلوگ بھی چائے کے رسیا تھے۔ باہر والے لڑکے ادھر سے اُدھر کسی کو چائے اور کسی کو دلاسہ دیتے نظر آتے اور اپنے تئیں آرڈر اور چائے کی ترسیل میں توازن رکھنے کی کوشش کرتے ۔ 

نیلی گاہے گاہے مختلف میزوں پر جا رہی تھی ۔ اُسے ان میزوں کی ترتیب اور راستوں میں آنے والی تمام رکاوٹیں ازبر ہوگئیں تھیں۔ نیلی کے شانوں پر دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ بڑی مضبوطی سے جمے ہوئے تھے جو اُسے رُکنے اور چلنے کی ہدایات دے رہے تھے ، ہدایات کیا دے رہے تھے یہ ہاتھ کسی کہنہ مشق ڈرائیور کے ہاتھوں کی طرح تھے جو گاڑی کے اسٹیرنگ پر مضبوطی سے جمے گاڑی کو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں موڑنے کا کام کرتے ہیں ۔ نیلی کو روکتے ، بڑھاتے یہ ہاتھ پرویز کے تھے۔ پرویز نیلی سے بڑا تھا ۔ بڑا بھی کیا تھا کہ پرویز اور نیلی کی عمروں میں سال دو سال کا ہی فرق ہوگا سو دونوں بہن بھائی تقریباً ہم عمر ہی نظر آتے تھے۔ 

نیلی دیکھ نہیں سکتی تھیں کہ اُس کی آنکھوں کی پُتلیاں پیدائش کے وقت سے ہی نہ جانے کس انجانے خوف سے گدلائی ہوئی سفید جھلیوں کے پیچھے جا چھپی تھیں۔ پرویز اور نیلی چائے کی ہوٹل پر موجود ہر میز پر جاتے اور اُن کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتے۔ پرویز کا کام نیلی کو میز کرسیوں پر براجمان لوگوں کے احاطہ ء نظر میں لاکر ختم ہوجاتا ۔ لوگ نیلی کی بے نور آنکھوں کو دیکھتے اور دو روپے ، پانچ روپے اور دس روپے نیلی کے ہاتھ پر رکھ دیتے ۔ جو لوگ کچھ نہ بھی دیتے وہ دل ہی دل میں ترس کھا کر رہ جاتے۔ ایک میز سے دوسری میز تک جاتے ہوئے ملنے والے سکے اور نوٹ پرویز کی جیب میں منتقل ہوجاتے۔ 

..............​

باقی سب ملازموں کی طرح الیاس بھی فیکٹری کے مالک ارشاد نواز سے خوش نہیں تھا۔ لیکن فیکٹری مزدوروں کے خوش ہونے نہ ہونے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے اُنہیں پیسے چاہیے تو کام تو کرنا پڑے گا ،جب اور جس طرح بھی ملے۔ تیار شدہ ملبوسات کے اس ادارے میں بے شمار مزدور دن اور رات کی شفٹوں میں کام کرتے لیکن اُن کو اتنا ہی ملتا کہ وہ بامشکل گزارا کر لیں ، وہ جو بھی کماتے راشن کی نظر ہوجاتا۔ کبھی کھانے پینے یا پہنے اوڑھنے میں ہاتھ کی گرہ کھل جاتی تو قرض کی رسی زیبِ گلو ہو جاتی ۔ مزدوری ہر ہفتے کے دن تقسیم ہوتی اور اُس دن مزودر وں کی کیفیت اُس گرسنہ بلی کی سی ہوتی جو ڈھونڈ ڈھانڈ کر کچرے سے ہڈی تو برامد کر لیتی لیکن اُس ہڈی سے غذائیت نچوڑنے کا عمل گلے اور تالوؤں کو اُدھیڑ کر رکھ دیتا۔ گو کہ مزدوری وقت پر ملتی لیکن کسی نہ کسی بہانے مزدوری میں کٹوتی ہو جاتی۔ کبھی کپڑا رنگنے کے عمل میں خرابی ہو جاتی تو اس کا خمیازہ مزدوروں کو بھی بھگتنا پڑتا اور کبھی کوئی برامدی ترسیل خریدار کی طرف سے رد کردی جاتی تو بھی مزدوروں کی دھاڑی سے ہی نقصان پورا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ 
"بھئی اپنی جیب سے تو نقصان پورا کرنے سے رہے، ایسے تو فیکٹری بند ہو جائے گی۔ پھر کہاں مزدوری ملے گی تم سب کو" ارشاد نواز خود کو حق بجانب سمجھتے۔ 
ہاں البتہ جب کبھی اُنہیں نسبتاً زیادہ منافع ہوتا تو اُنہیں کبھی وہ مزدور یاد نہ آتے جو خسارے میں اُن کے شریک ہوتے۔ 

زندگی بڑی عجیب چیز ہے رو دھو کر بھی چلتی رہتی ہے۔ الیاس بھی جیسے تیسے دن کاٹ رہا تھا، چھوٹے سے گھر میں وہ اور اُس کی بیوی تبسم، تنگی ترشی کی دن گزار رہے تھے۔ اُن کی تمام تر خوشی ننھے منے پرویز تک ہی محدود تھی کہ جسے دیکھ کر وہ مسرور ہوجاتے لیکن غربت کے باعث وہ اُس کے لئے بھی کچھ نہیں کر پاتے اور یہ خیال اُن کے مسرور چہرے سے اُجالا نوچ کر پھینک دیتا۔ پھر جب نیلی کی پیدائش ہوئی تو جیسے اُن کی رہی سہی خوشیوں کو بھی نظر لگ گئی۔ الیاس کا دل اُس چراغ کی طرح بجھ گیا جو طاق سے پختہ فرش پر گر کر ٹوٹ گیا ہو۔ تبسم صرف نام کی تبسم رہ گئی اور اُس کے چہرے سے مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئی۔ نیلی پیدائشی طور پر نابینا تھی۔ اُس کا ناک نقشہ بہت خوب تھا لیکن اُس کی آنکھیں ۔ اُس کی آنکھوں کو دیکھ دیکھ کر ماں باپ کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے۔ انہوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اُس کا نام نیلم رکھیں گے لیکن یہ بات اُن کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھی کہ اُن کی نیلی، نیلم کی طرح پیاری ہونے کے ساتھ ساتھ پتھر کی طرح اُن سے بیگانی بھی ہوگی۔ غربت کے آنگن میں پلنے والے بچوں کی قسمت میں پیار کہاں ہوتا ہے پھر بھی نیلم کو پیار سے نیلی کہا جانے لگا۔ شاید یہ نام پیار سے زیادہ بولنے والوں کی آسانی کا مظہر تھا۔ 

..............​

"لگتا ہے تم مجھے بیمار کرکے ہی چھوڑو گے" عاصم نے متذبذب انداز میں ایک کرسی گھسیٹتے ہوئے اسماعیل سے کہا۔ 
"ارے سر! کچھ نہیں ہوتا! کبھی کبھی ہم غریبوں کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کریں"۔ اسماعیل بھی ایک کرسی پر براجمان ہو چکا تھا۔ 
"سینکڑوں لوگ دن بھر میں یہاں سے چائے پیتے ہیں، سب بیمار تھوڑی ہوتے ہیں۔ یہ تو چند ایک نصیبوں جلے ہی آپ ڈاکٹروں کی روزی روٹی کا سبب بن جاتے ہیں" اسماعیل نے مسکراتے ہوئے عاصم پہ طنز کیا۔ 
"ہاں ! وہ تو ٹھیک ہے لیکن دیکھو نا ۔۔۔ ۔! یہ لوگ صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ایسے میں ڈر تو لگتا ہے نا!" عاصم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ 

عاصم اُسی ہسپتال میں سینیر ڈاکٹر تھا جس میں اسماعیل بطور میل نرس کام کیا کرتا تھا۔ اسپتال کے عملے سے عاصم کا سلوک دوستانہ تھا ۔ آج اتفاق سے وہ اسماعیل کو گھر تک چھوڑنے آ گیا تو اسماعیل اُسے ضد کرکے مشہورِ زمانہ کوئٹہ ہوٹل پر چائے پلانے لے آیا۔ 
عاصم بغور چائے بنانے والے اور برتن اُٹھانے رکھنے والے لڑکوں کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ لوگ اپنے طور پر صفائی کا خیال بھی رکھ رہے تھے لیکن عاصم کے خیال میں یہ نا کافی تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ تھوڑی سی کوشش کرکے ممکنات کی سرحدوں کو توسیع دی جا سکتی ہے۔ 

..............​

غربت کے دن بھی انسان جیسے تیسے کاٹ ہی لیتا ہے لیکن کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جو اُسے اندر سے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ نیلی کا دُکھ الیاس کے لئے ایسا ہی تھا۔ وہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا کبھی خدا سے بھی شکوہ کرتا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا۔ کیوں اُس کی چاند سی پیاری بیٹی کی ساتھ ہی ایسا ہوا کہ دنیا اُسے دیکھ کر ترس کھاتی اور وہ دنیا کو دیکھ بھی نہ پاتی۔ اُس نے اپنے طور پر نیلی کا علاج کرانے کی بھی کوشش کی لیکن نہ تو اس پسماندہ علاقے میں علاج کی اچھی سہولتیں تھیں اور نہ ہی اُس کی جیب اجازت دیتی کہ وہ آگے بڑھ کر کچھ کر سکے۔ پھر زیادہ تر ڈاکٹر اُس کی غربت کو دیکھتے ہوئے کوئی مہنگی اُمید اُس کی جھولی میں ڈالنے سے کتراتے اور نتیجتاً اُس کی مایوسی دو چند ہوجاتی۔ سوائے کُڑھنے کے اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ 
ہر وقت کی یہ تکلیف الیاس کے لئے دن بدن سوہانِ روح ہوتی جا رہی تھی۔ پھر فیکٹری کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اُسے نشے کی عادت نے آ لیا۔ وہ روزانہ رات نشہ کرکے خود کو ادھر اُدھر کی سوچوں سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا۔ نشے سے جُز وقتی سکون تو اُسے مل گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں پھنس گیا ہے۔ 
پھر ایک روز جب وہ نشے کی حالت میں گھر جا رہا تھا تو ایک انجانی گاڑی نے اُس کی سب مشکلیں آسان کردیں۔ 

جو گھرانہ الیاس کے دم قدم سے جیسے تیسے چل رہا تھا ، اُ س کے بعد تو جیسے وہاں برے وقت نے ڈیرے ہی ڈال لئے۔ مرنے والے کا کفن دفن تو کسی نہ کسی طرح ہو ہی جاتا ہے لیکن زندگی کہاں پیچھا چھوڑتی ہے ، زندہ لوگوں کو تو بہرکیف جینے کا تاوان دینا ہی پڑتا ہے۔ تنگی تُرشی فاقوں کی شکل اختیار کرنے لگی تو محلے پڑوس والے بھی کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گئے۔ کہتے ہیں بھوک بڑی سفاک ہوتی ہے۔ اور واقعی بھوک نے اُنہیں اُس مقام تک پہنچا دیا جس کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ شاید الیاس بہت خود غرض تھا کہ قبر میں جا سویا۔ اب اُس کے لختِ جگر راہوں کی دھول ہوتے رہیں اُسے ہرگزپرواہ نہیں تھی۔ 

..............​

نیلی اور پرویز آدھے ایک منٹ ہر میز پر رُکتے اور اگر کوئی اُنہیں کچھ دینے پر آمادہ نہ ہوتا تو وہ آگے چل دیتے۔ کبھی کبھی کچھ لوگ متوجہ ہونے یا جوابی ردِ عمل ظاہر کرنے میں زیادہ دیر لگاتے تو کچھ ثانیے اور رُک جاتے۔ ابھی مایوسی کے مہمیز کرنے پر وہ ایک میز سے مُڑے ہی تھے کہ کسی کی آواز سنائی دی۔ 
"بات سنو ! ادھر آؤ ذرا۔۔۔ ۔! " یہ عاصم کی آواز تھی۔ 

..............​

ڈاکٹر عاصم اُس کی زندگی میں فرشتہ بن کر آئے تھے۔ شروع شروع میں تو اُسے یقین ہی نہیں آیا کہ چائے کی ہوٹل پر بیٹھا کوئی شخص اُسے بھیک دینے کے بجائے ایک ایسی بات کہہ رہا ہے جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اُس نے تو اندھیروں کو ہی اپنا مقدر سمجھ لیا تھا لیکن جب اُسے یقین آیا کہ اُس کی آنکھیں بھی دنیا دیکھ سکیں گی اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ عاصم ایک تجربہ کار ڈاکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ اُس کی رسائی ایک ایسے ادارے تک بھی تھی جو راہِ خدا مستحق لوگوں کی آنکھوں کا علاج کرتاتھا۔ عاصم کی تجربہ کار آنکھیں پہلی نظر میں ہی بھانپ گئیں تھیں کہ نیلی کی مشکل کا حل ناممکن نہیں ہے۔ 

خوشی اور اُمید روز و شب کے حساب کو گھٹا دیتے ہیں۔ پتہ بھی نہ چلا کہ کب کاغذی کاروائیاں پوری ہوئیں اور کب وہ دن آ پہنچا کہ نیلی دن اور رات میں تمیز کرنے لگی۔ اب نیلی بے حد خوش تھی۔ وہ ایک ایک چیز کو دیکھتی اور حیران ہوتی۔ وہ اپنے تخیل کی دنیا کی ساری تصویریں حقیقی دنیا سے ملاتی اور مسکراتی ۔ اُس کا تخیل کمزور نہیں تھا لیکن مکمل تصویر کاری کے لئے روشنی کتنی ضروری ہے اُسے اب اس بات کا احساس ہورہا تھا۔ 

....................​

پھر آہستہ آہستہ جب روشنی کی چکاچوند کچھ کم ہوئی اور زندگی معمولات کی طرف لوٹنے لگی تو اُس پر زندگی کے خدو خال آشکار ہونے لگے۔ زندگی کی رنگا رنگی رفتہ رفتہ عمومیت کی دھند میں اپنی جاذبیت کھو رہی تھی۔ نیلی کو اکثر زندگی کی بدصورتی کا احساس ہونے لگا۔ خیراتی ادارے "نورِ اُمید" سے آپریشن کے بعد جو رقم نیلی کے گھرانے کو دی گئی تھی وہ بھی اب ختم ہو رہی تھی، اُسے اور پرویز کو لامحالہ اپنے معمول پر لوٹنا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ 

..............​

دوکانیں وہی تھیں، ہوٹلوں اور رہگزاروں پر موجود لوگ بھی کم و بیش وہی تھے لیکن اب پہلے والی بات نہیں رہی تھی۔ ایک دو دن میں ہی نیلی اور پرویز کو یہ احساس ہوگیا کہ گھر لوٹتے ہوئے اب اتنے پیسے اُن کے پاس نہیں ہوتے کہ وہ ٹھیک سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ آج تیسرا دن تھا کہ وہ دونوں بہن بھائی شہر بھر میں مارے مارے پھر رہے تھے لیکن کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں تھا ۔ کوئی نہیں تھا جو پوچھتا کہ دووقت روٹی نہ ملے تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ تھی کہ اب نیلی اُن لوگوں کو دیکھ سکتی تھی جو اُنہیں دیکھ کر منہ بناتے تھے، نفرت اور کراہیت کا اظہار کرتے۔ شاید یہ لوگ پہلے بھی ایسے ہی کرتے ہوں لیکن تب نیلی کو یہ بدصورت مناظر نظر نہیں آتے تھے۔ پھر سب سے بڑی بات اب نیلی کے چہرے پر وہ بے نور آنکھیں نہیں تھیں کہ جنہیں دیکھ کر لوگوں کا دل پسیج جاتا اور نوٹ اور سکے ان کی جیبوں سے نکل کر نیلی کے ہاتھ میں پہنچ جاتے۔ نیلی کے لئے یہ کرب کسی طرح کم نہیں تھا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ اب وہ یہ سب چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ 

نیلی نے ایک بار کہیں سنا تھا کہ خدا کسی سے ناانصافی نہیں کرتا، لیکن تب یہ بات اُس کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ جب اُس کی آنکھوں میں بینائی نہیں تھی تو وہ سوچتی تھی کہ خدا نے سب کو آنکھیں دی تو مجھے کیوں نہیں دیں۔ لیکن اب اُسے احساس ہو رہا تھا کہ خدا نے جنہیں آنکھیں دی ہیں وہ صرف ظاہر کو ہی دیکھتے ہیں ، وہ آنکھوں پر ہی اعتبار کرتے ہیں اُنہیں شاید خدا نے دل نہیں دیے ۔ 

.............​

تیز رَو ہے زندگی ، رفتار آہستہ کرو

غزل

ذہن و دل کو رُوح سے کچھ دیر وابستہ کرو
تیز رَو ہے زندگی ، رفتار آہستہ کرو

سامنے ہوگی جواباً خود گلابوں کی ہنسی
غم کے لہجے کو ذرا کچھ اور شائستہ کرو

مانگتی ہے زندگی باہوش رہنے کا ثبوت
گاہ چونکو، گاہ لغزش کوئی دانستہ کرو

قول و اقرارِ محبت کا کہاں اب وقت ہے
کتنے ہنگامے کھڑے ہیں بات آہستہ کرو

رقص و عکس و رنگ ہو، کوئی تماشا تو بنے
آئینے کو پھر کسی اِک رُخ سے وابستہ کرو

ذکاءالدین شایاں


مظفر حنفی کی دو نظمیں

نئے نظریے کی تخلیق   


کانچ کی رنگین ٹؤٹی چوڑیوں کو
آئینے کے تین ٹکڑوں  میں 
کسی بھی ڈھنگ سے رکھ دو
نیا خاکہ بنے گا
جس میں اک ترکیب ہوگی
لاکھ جھٹکے دیجئے
ہر بار یہ ترکیب اک ترکیبِ نو میں ہی ڈھلے گی
جب بھی کچھ ٹوٹے ہوئے لوگوں میں
اپنے تجرباتِ خام کے قصّے چھڑیں گے
اِک نظریہ جنم لے گا


صورِ اسرافیل   


اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو
لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک دو
اپنے بچوں کی جانب سے منہ پھیر لو
اس گھڑی بیویوں کی نہ پرواہ کرو
راہ میں دوستوں کی نظر سے بچو
اس سے پہلے کے تعمیل میں دیر ہو
سائرن بج رہا ہے چلو دوستو


*******

ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے ۔ قیس فریدی

غزل


ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے
جیسے کسی غریب کا خستہ مکاں گرے

مانا کہ اے ہوا تُو نہیں گن سکی مگر
دیکھا تو ہوگا پات کہاں سے کہاں گرے

پہلے ہی زخم زخم ہے دھرتی کا انگ انگ
پھر کیا ضرور ہے کہ یہاں آسماں گرے

یُوں صحنِ تیرگی میں پڑی چاند کی کرن
جیسے خموش جھیل میں سنگِ گراں گرے

ہم قیسؔ ، اپنی بھوک مٹانے کے واسطے 
صیّاد کا تھا جال جہاں پر وہاں گرے

قیس فریدی

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا ۔ عرفان صدیقی

غزل 


چراغ دینے لگے گا دھواں  نہ چھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا

زمیں چُھٹی تو بھٹک جاؤگے خلاؤں میں
تم اُڑتے اُڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا

نہیں تو برف سا پانی تمھیں جلا دے گا
گلاس لیتے ہوئے اُنگلیاں نہ چھو لینا

ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھو لینا

اُڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

مروٓتوں کو محبت نہ جاننا، عرفان
تم اپنے سینے سے نوکِ سناں نہ چھو لینا

عرفان صدیقی