افسانہ : سلسلہ تکّلم کا

سلسلہ تکّلم کا
محمد احمدؔ
کِسی کی آواز پر اُس نے چونک کر دیکھا ۔ 
اُسے بھلا کون آواز دے سکتا ہے، وہ بھی اِ س محلے میں جہاں اُسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
اُسے دور دور تک کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا ۔ ایک جگہ کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر اُسے اس بات کا بھی یقین نہیں تھا کہ پکارنے والے نے اُسی کا نام پکارا ہے۔
یہ سوچتے ہوئے کہ شاید پکارنے والے نے اُس کے بجائے کسی اور کو پکارا ہے وہ آگے بڑھ گیا۔
باتوں کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے تو نہیں جُڑ سکا کہ اس صوتی مداخلت نے اُس کے ذہن کی کئی پرتیں اُلٹ پلٹ کر رکھ دیں اور وہ باوجود کوشش کے یہ یاد نہ کر سکا کہ اس بے جا مداخلت سے پیشتر کیا بات ہو رہی تھی۔ تاہم چار چھ قدم آگے بڑھاتے ہی ذہن کے کسی گوشے سے ایک اور تصفیہ طلب معاملہ گفتگو کے دائرے میں آ دھمکا اور وہ اُس نئے موضوع کے ساتھ جھوجنے لگا۔

گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔

خود سے بات کرنے کی عادت اُسے کب پڑی اُسے یاد بھی نہیں تھا۔ ایک زمانے تک یہ عادت خود اُس سے بھی حجاب میں رہی لیکن پھر رفتہ رفتہ فطرتِ ثانی کی طرح عیاں ہونے لگی اور اُس نے جان لیا کہ اب اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

وہ کوئی الگ تھلگ رہنے والا آدمی نہیں تھا ۔ مجلسی طبیعت کا نہ سہی لیکن دوست احباب میں اُس کی موجودگی بہت اہم گردانی جاتی تھی۔ وہ ہر طرح کے موضوع پر بات کر سکتا تھا۔ ہنسی مذاق سے لے کر سنجیدہ مذاکرے تک وہ کئی ایک موضوع پر ٹھیک ٹھاک درک رکھتا تھا اور بوقت ضرورت گفتگو میں شریک بھی رہتا تھا۔ جب تک یہ گفتگو مذہب سے سیاست اور حالاتِ حاضرہ سے کھیل کے میدانوں میں فراٹے بھرتی رہتی اُس کی ہر بات میں ایک رنگ ہوتا اور ہر تاثر بھرپور ہوتا ۔ تاہم گفتگو کے یہ رنگ اچانک ہی پھیکے پڑ جاتے جب موضوعات کے سیارچے اپنے مدار سے ہٹ کر اُس کی ذات کے مرکزے میں گھسنے کی کوشش کرتے۔اپنی ذات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ ایک دم عربی سے عجمی ہو جاتا۔
گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس کی ذات کی گپھا میں اندھیرے ہی اندھیرے ہوں یا ہمہ وقت کربناک ماضی کی چمگادڑیں یہاں سے وہاں اُڑتی اور ٹکراتی پھرتی ہوں۔ تاہم وہ اپنے من کی باتیں ہر کسی سے نہیں کر سکتا تھا۔ اِ سے آپ اُس کی عادت کہیں یا کچھ اور لیکن وہ اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اپنی ذات سے متعلق بہت کم ہی باتیں کرتا اور اُس کے قریب ترین لوگ بھی اُس کے احساسات سے بہت کم ہی واقف ہو پاتے۔

یوں تو وہ شروع ہی سے اپنے دل کی باتیں اپنے تک ہی رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جلد ہی وہ جان گیا کہ چڑھے ہوئے نالوں کو راستہ نہ ملے تو وہ آبادی میں در آتے ہیں اور پھر وہ تباہی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اُس کے احساسات اور اُس کے غم جب اُسے اندر ہی اندر جلانے لگتے تو کچھ باتیں بھانپ کی طرح اوپر اُٹھتی اور اُس کے لبوں کے روشن دان سے ہوتی ہوئی خود کو آزاد کرا لیتی۔ روشن دان سے اُٹھتی ہوئی یہ صوتی بھانپ جب باہر کی تازہ ہوا سے گلے ملتی تو تازگی کے جھرنے اُس کا لباس ہو جاتے اور نطق سے سماعت کا مختصر دورہ طے کرکے وہ پھر سے ایوانِ سماعت پر دستک دے دیتی ۔ یوں یہ صرصر اُس کے کانوں سے گزر کرجب ایک بار پھر سے اُس کے دل تک پہنچتی تو صبا کا روپ دھار چکی ہوتی۔ اس ان چاہے عمل سے جاگنے والا طمانیت کا احساس اُسے رفتہ رفتہ باقاعدہ خود کلامی کی دنیا میں لے آیا۔ تاہم اس کے لئے سب سے اہم شرط تنہائی تھی۔

شروع شروع میں جب وہ خود کلامی کرتے ہوئے دیکھا گیا تو لوگ حسبِ توقع حیران ہوئے اور بات استفسار تک بھی آئی ۔ تاہم وہ جلد ہی سنبھل گیا اور خودکلامی کو تنہائی سے مشروط کردیا۔ رفتہ رفتہ شہرِ ذات سے ملاقات کا یہ وقفہ مختصر ہوتے ہوتے رات کے کھانے کے بعد مختصر گشت تک محدود ہو گیا ۔ تاہم اُس نے اپنے لئے اس چہل قدمی کو لازمی کر لیا کہ اندر کی دنیا کو باہر کی دنیا کی سیر کرانا اُس کے لئے باعثِ طمانیت ہی نہ تھا ، نا گزیر بھی تھا۔

اگلے روز یہ معمہ بھی حل ہو گیا کہ گذشتہ دن اُسے پکارنے والا کون تھا۔ وہ کوئی شناسا نہیں تھا نہ ہی اُسے نام لے کر پکارا گیا تھا لیکن مخاطب کوئی اور نہیں صرف وہ ہی تھا۔

آج وہ اپنے اور صالحہ کے مابین کشیدگی کے بارے میں محوِ گفتگو تھا۔ اُس کے سامنے کٹہرے میں وہ خود کھڑا تھا اور کٹہرے میں کھڑے شخص کے سامنے بیٹھے منصف کی نشست بھی اُسی نے سنبھالی ہوئی تھی۔ عدالت کے اس ماحول میں کٹہرے میں کھڑے شخص پر سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور کٹہرے میں کھڑا شخص اپنے دفاع میں دلائل دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ جج صاحب کافی غصے میں نظر آتے تھے اور کٹہرے میں کھڑا شخص مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی ندامت میں ڈوبا نظر آتا تھا۔ قریب تھا کہ جج صاحب اپنا فیصلہ سناتے اور ملزم پر فردِ جرم عائد کرتے کہیں سے کسی نے اُسے پکارا۔ اِس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد نے راہ چلتی عدالت کو منصف و ملزم سمیت یکایک ہوا میں تحلیل کر دیا اور وہ چونک کر آواز کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک طرف کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُسے پکارنے والے شاید اُس کے نام سے واقف نہیں تھے یا شاید اُنہیں اُس کے نام سے غرض ہی نہیں تھی۔ اُس کے ذہن کی اُلٹتی پلٹتی پرتوں میں جو آخری لفظ اُس کی شعوری سطح سے زائل ہوتا نظر آیا وہ قابلِ غور تھا۔ اور وہ لفظ تھا "پاگل!"۔ دور کہیں بچوں کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی۔

اُس شام وہ نہ جانے کیسے گھر پہنچا ۔ نہ جانے کتنے لفظ سینے میں ہی گھٹ کر مر گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُس کے دل میں مدفون ہو گئے۔ اُس کی حالت اس قدر غیر ہو رہی تھی کہ ناراض صالحہ اپنے ناراضگی تک بھول گئی اور اُس سے پوچھنے لگی۔ کیا ہوا ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ 

ہاں ٹھیک ہے۔ اُس نے چہرے پر مسکراہٹ کا تار تار ماسک لگانے کی کوشش کی لیکن کلی طور پر ناکام رہا۔ وہ تو یوں بھی کچھ نہیں بتا پا تا تھا ۔ پھر آج کی بات۔
ہاں ٹھیک ہوں۔ اُس نے ایک بار پھر اضطراری حالت میں کہا۔ حالانکہ صالحہ کمرے سے کب کی جا چکی تھی اور کچن میں موجود فرج سے اُس کے لئے پانی نکال رہی تھی۔

اگلے دو چار دن وہ چہل قدمی کو نہیں گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ خود سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اُس کے پاس تو ڈھیروں باتیں تھیں لیکن وہ اپنوں کی نظروں سے بچ کر غیروں کی نظروں میں تماشا نہیں بننا چاہتا تھا۔

پھر ایک دن ، اُسے ایک خیال سوجھا اور اس خیال کے آتے ہی وہ جیسے نہال ہو گیا۔ اُس روز دفتر سے واپسی پر وہ سیدھا موبائل مارکیٹ گیا اور وہاں سے ایک بلیو ٹوتھ ائیر پیس خریدا ۔ اور شام کے کھانے کے بعد جب وہ چہل قدمی کرنے نکلا تو اُس کے دائیں کان میں نیا بلیو ٹوتھ ائیر پیس جگمگا رہا تھا اور اُس کا موبائل سیٹ گھر پر تاروں سے جُڑا بجلی مستعار لے رہا تھا۔ اُس نے آج ایک نیا راستہ اختیار کیا اور انتہائی ذاتی نشریاتی رابطے پر دل سے منسلک ہو گیا۔ 

گھر سے کچھ دور آتے آتے عدالت کی کاروائی شروع ہو گئی تھی۔ آج بھی وہ کٹہرے میں کھڑا تھا اور جج صاحب کے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔ آج البتہ جج صاحب اُس کے دلائل بغور سن رہے تھے اور زور زور سے سر ہلا رہے تھے۔ پھر جج صاحب مسکرائے اور اُسے با عزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اُس کی انا اور خودداری کمرہ عدالت سے باہر اُس کے لئے پھول ہار لئے کھڑے تھے۔

"یہ آدمی خود سے باتیں کر رہا ہے؟" اچانک کہیں سے ایک آواز آئی۔
ارے "پاگل" یہ موبائل پر بات کر رہا ہے۔ دوسری آواز میں لاپرواہی تھی۔
آج اُسے لفظ پاگل کا استعمال بہت اچھا لگا۔
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔ اگلا زیرِ گفتگو سوال یہ تھا کہ صالحہ کے لئے کیا گفٹ خریدا جائے؟

******​

غزل ۔ ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے ۔ محمد احمدؔ



یہ غزل اردو محفل کے مشاعرے میں پیش کی تھی۔ آج قارئینِ بلاگ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ 

غزل

ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے
یہ سات رنگ کا آنچل جو بادباں ہو جائے

سُلگ رہا ہوں کئی دن سے اپنے کمرے میں
دریچہ کھولوں تو دنیا دھواں دھواں ہو جائے

بدل کے نام سُنا رکھی ہے اُسے ہر بات
یہ ایک بات بتا دوں تو رازداں ہو جائے

میں اپنے آپ کو چھوڑ آیا ہوں کہیں پیچھے
کچھ اور تیز چلوں میں تو کارواں ہو جائے

یہیں کہیں وہ مرے ساتھ تھا، میں سوچتا ہوں
یہاں گھڑی دو گھڑی کوئی سائباں ہو جائے

یہ انتشار ہے ترتیبِ نو نہ جان اسے
کہ کائنات کی ہر شے یہاں وہاں ہو جائے

سرشکِ غم کو تبسم کی سیپ میں رکھیے
کہ راز راز رہے، حالِ دل بیاں ہو جائے

پروں پہ تتلی کے پیغام لکھ کے بھیجوں میں
ہوا کا جھونکا کسی دن خبر رساں ہو جائے

جہاں کی رِیت ہے کُہرام مچنے لگتا ہے
کسی کو عشق ہو یا مرگِ ناگہاں ہو جائے

ابھی تو جسم مرا دھوپ کی امان میں ہے
پرائے سائے میں آ کر نہ بے اماں ہو جائے

ہے اس جہان کی ہر بات عام سی لیکن
جو سچے شعر میں ڈھل جائے داستاں ہو جائے
محمد احمدؔ