کوئی مہرباں نہیں ساتھ میں، کوئی ہاتھ بھی نہیں ہات میں
ہیں اداسیاں مری منتظر سبھی راستوں میں جِہات میں
ہے خبر مجھے کہ یہ تم نہیں، کسی اجنبی کو بھی کیا پڑی
سبھی آشنا بھی ہیں روبرو، تو یہ کون ہے مری گھات میں
یہ اداسیوں کا جو رنگ ہے، کوئی ہو نہ ہو مرے سنگ ہے
مرے شعر میں، مری بات میں، مری عادتوں میں، صفات میں
کریں اعتبار کسی پہ کیا کہ یہ شہر شہرِ نفاق ہے
جہاں مسکراتے ہیں لب کہیں، وہیں طنز ہے کسی بات میں
چلو یہ بھی مانا اے ہمنوا کہ تغیّرات کے ماسوا
نہیں مستقل کوئی شے یہاں، تو یہ ہجر کیوں ہے ثبات میں
مری دسترس میں بھی کچھ نہیں ، نہیں تیرے بس میں بھی کچھ نہیں
میں اسیرِ کاکلِ عشق ہوں، مجھے کیا ملے گا نجات میں
محمد احمدؔ
واہ سبحان اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ
خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، لاجواب۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ جعفر بھائی اور وارث بھائی!
جواب دیںحذف کریں۔
اسیرِ کاکلِ عشق کی ترکیب قبلہ خوب ہے ۔
جواب دیںحذف کریںمحمد ریاض شاہد صاحب،
جواب دیںحذف کریںسب سے پہلے تو بلاگ پر خوش آمدید! اور پھر شکریہ کہ آپ نے غزل پر نظرِ التفات ڈالی.
خوب لکھا ہے اور ختم تو زبردست کيا ہے
جواب دیںحذف کریںمری دسترس میں بھی کچھ نہیں ، تیرے بس میں بھی کچھ نہیں
میں اسیرِ کاکلِ عشق ہوں، مجھے کیا ملے گا نجات میں
بہت شکریہ افتخار اجمل بھوپال صاحب !
جواب دیںحذف کریں۔