[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تعریف غزل کی۔ ٢

تعریف غزل کی ۔ ٢

بات پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے  کہ مروجہ تعریف کے مطابق غزل کے لغوی معنی ہیں "عورتوں سے باتیں کرنا" یا "عورتوں کی باتیں کرنا" تاہم آج کی غزل کے موضوعات بہت متنوع ہو گئے ہیں ۔غزل ہر شعر میں نئے موضوع، معنی آفرینی اور ندرتِ بیان کے ایسے شاہکار کی طلبگار ہوتی ہے کہ جس کی نظیر بامشکل ملے اور اسے چند گنے چنے رومانوی موضوعات تک محدود رکھنا غزل کی فضا کو محبوس کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ 

  ہماری رائے میں  محبوب سے گفتگو جس وارفتگی اور لگاوٹ کی متقاضی ہے اُس کے لئے  غزل سے زیادہ موزوں تر نظم ہے۔ پیہم گفتگو جو ماحول  چاہتی ہے وہ غزل کے فرد فرد مضامین  سے  زیادہ نظم فراہم کر سکتی ہے۔ نظم شعراء کو جذبات کے بہاؤ  ، شیفتگی  اور لگاؤ  کے اظہار کے لئے جو  فضا  دیتی ہے وہ غزل میں بالعموم نظر نہیں آتی۔  نظم کا تسلسل شاعر کو تمہید سے اختتام تک  اپنی بات کو با آسانی کہنے  میں آسانی فراہم کرتا ہے ۔ کچھ مسلسل غزلیات البتہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ 

غزل کی تعریف کو نظم پر منطبق کرنے کی ہماری جسارت شاید آپ کو کچھ بے جا معلوم ہو تاہم یہ ایک خیال ہے اور اس سے اختلاف  بہرکیف کیا جا سکتا ہے۔ 

ہمارے زاویہء نظر  سے اگر دیکھا جائے تو کئی ایک رومانی شعراء نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے  نظم کا سہارا لیا ہے۔ سرِ دست ہم یہاں جاوید صبا کی دو نظم نما غزلیں یا غزل نما نظمیں پیش کر رہے ہیں ۔ اس کلام کو اگر آپ نظم نہ بھی کہنا چاہیں تو مسلسل غزل کہے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ 

 کون ہو کیا ہو یہ نہیں معلوم
یورپی ہو کہ ایشیائی ہو
ہو اِسی آب و گِل کی پروردہ 
یا پرستاں سے اُڑ کے آئی ہو
کس نے گُوندھی ہے آگ میں مٹی
کیسی ترکیبِ کیمیائی ہو
ایسی آنکھیں کہیں نہیں دیکھیں
تم یہ آنکھیں کہاں سے لائی ہو
بنتِ حوا ہو یا پری زادی
یا کسی سلطنت کی شہزادی
کس کو بیداد کرنے نکلی ہو 
کس کو برباد کرنے نکلی ہو
اے جمالِ جمالِ دل آرا 
حسن کی آخری دوائی ہو
حشر ساماں ہو آئینے کے لئے 
تم قیامت نہیں تباہی ہو

جاوید صبا

چپ چپ اداس اداس نظر آ رہی ہو تم
بیٹھے بٹھائے جانے کہاں کھو گئی ہو تم
ہونٹوں پہ اک خموش تبسم کی چاپ ہے 
آنکھیں بتا رہی ہیں بہت بولتی ہیں تم
شاید روا روی میں کوئی بات کر گیا
کہنا یہ چاہتا تھا کہ اچھی لگی ہو تم
اے جانِ بے فراق کسی کے فراق میں 
میں نے سنا ہے زہر تلک کھا چکی ہو تم
محفل میں جس سے بات ہوئی تھی وہ تم نہ تھی
خلوت میں میری جان کوئی دوسری ہو تم
انگڑائیوں میں نیند میں آنکھوں میں خواب میں
کوئی نہیں تمہی ہو، تمہی ہو، تمہی ہو، تم

جاوید صبا

جاوید صبا کے علاوہ  فارحہ نگارینہ کے نام لکھی جون کی یہ نظم بھی ہمارے خیال کی تائید کرتی ہے۔ 

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجیئے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجیئے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا

میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ 
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا 
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
نقشِ جاں مٹا دوں کیا

مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ! 
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے 
تم مجھے بتاؤ تو 
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیےتم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے؟ 

جون ایلیا

علاوہ ازیں اختر شیرانی نے بھی اپنی یکے بعد دیگرے معشوقاؤں سے مخاطب ہونے کے لئے نظم یا مسلسل غزل کا ہی انتخاب کیا ہے جسے اردو شاعری جاننے والےجانتے ہیں۔ 

ویسے ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ غزل کی تعریف کو بدل دیا جائے تاہم اس تعریف کو ترقی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں