غزل ۔ بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے ۔ محمد تابش صدیقی

محمد تابش صدیقی کی خوبصورت غزل

غزل

بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے
اشک جو بہنے نہیں تھے بہہ گئے

راہِ حق ہر گام ہے دشوار تر
کامراں ہیں وہ جو ہنس کر سہہ گئے

زندگی میں زندگی باقی نہیں
جستجو اور شوق پیچھے رہ گئے

سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے

اے خدا! دل کی زمیں زرخیز کر
ابرِ رحمت تو برس کر بہہ گئے

شاد رہنا ہے جو تابشؔ، شاد رکھ
بات یہ آبا ہمارے کہہ گئے

محمد تابش صدیقی​

5 تبصرے:

  1. سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
    ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے

    خوب!

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب۔
    خدا جانے یہ اعزاز تابشؔ بھائی کے لیے ہے یا آپ کے لیے کہ آپ کے بلاگ پر ان کی غزل شائع ہوئی ہے۔۔۔ ممکن ہے ہمارے لیے ہو۔ کیا کہہ سکتے ہیں!

    جواب دیںحذف کریں
  3. تابش بھائی کی غزل چھاپنا ہمارے لئے اعزاز ہے۔

    ہاں آپ کا تبصرہ داغنا عین ممکن ہے کہ آپ کے لئے اعزاز ہو۔ :) :) :)

    جواب دیںحذف کریں
  4. ارے، میں بھی کتنا نامعقول انسان ہوں کہ معلوم بھی نہ ہو سکا کہ میری یہ کاوش آپ کے معقر بلاگ کا حصہ بن کر اپنی قیمت بڑھا چکی ہے۔
    محبتوں پر ممنون ہوں احمد بھائی۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. تابش بھائی! اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔

    ہمارے بلاگ پر اچھی غزلیں از خود اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔ :)

    جواب دیںحذف کریں