محمد تابش صدیقی کی خوبصورت غزل
غزل
بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے
اشک جو بہنے نہیں تھے بہہ گئے
راہِ حق ہر گام ہے دشوار تر
کامراں ہیں وہ جو ہنس کر سہہ گئے
زندگی میں زندگی باقی نہیں
جستجو اور شوق پیچھے رہ گئے
سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے
اے خدا! دل کی زمیں زرخیز کر
ابرِ رحمت تو برس کر بہہ گئے
شاد رہنا ہے جو تابشؔ، شاد رکھ
بات یہ آبا ہمارے کہہ گئے
محمد تابش صدیقی
سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
جواب دیںحذف کریںہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے
خوب!
بہت خوب۔
جواب دیںحذف کریںخدا جانے یہ اعزاز تابشؔ بھائی کے لیے ہے یا آپ کے لیے کہ آپ کے بلاگ پر ان کی غزل شائع ہوئی ہے۔۔۔ ممکن ہے ہمارے لیے ہو۔ کیا کہہ سکتے ہیں!
تابش بھائی کی غزل چھاپنا ہمارے لئے اعزاز ہے۔
جواب دیںحذف کریںہاں آپ کا تبصرہ داغنا عین ممکن ہے کہ آپ کے لئے اعزاز ہو۔ :) :) :)
ارے، میں بھی کتنا نامعقول انسان ہوں کہ معلوم بھی نہ ہو سکا کہ میری یہ کاوش آپ کے معقر بلاگ کا حصہ بن کر اپنی قیمت بڑھا چکی ہے۔
جواب دیںحذف کریںمحبتوں پر ممنون ہوں احمد بھائی۔
تابش بھائی! اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔
جواب دیںحذف کریںہمارے بلاگ پر اچھی غزلیں از خود اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔ :)