[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تری جستجو میں بتاؤں کیا ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا ۔ مقبول نقش

غزل

تری جستجو میں بتاؤں کیا ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کہیں دل کی دھڑکنیں رُک گئیں، کہیں وقت جیسے ٹھہر گیا

ترے غم کی عمر دراز ہو، مرا فن اسی سے سنور گیا
یہی درد بن کے چمک گیا، یہی چوٹ بن کے اُبھر گیا

یہ تو اپنا اپنا ہے حوصلہ ، کہیں عزم اور کہیں گِلہ 
کوئی بارِ دوشِ زمیں رہا، کوئی کہکشاں سے گزر گیا

یہ اختلافِ مذاق ہے، یہی فرقِ وصل و فراق ہے
کوئی پائمالِ نشاط ہے، کوئی غم بھی پا کے سنور گیا

ترا لطف ہو کہ تری جفا، مِرے غم کی یہ تو نہیں دوا
مجھے اب تو اپنی تلاش ہے، میں تری طلب سے گزر گیا

وہ اُمنگ اور وہ ہما ہمی، جسے نقشؔ کہتے ہیں زندگی
دلِ نامُراد کے دَم سے تھی، دلِ نامُراد تو مر گیا

مقبول نقش

2 تبصرے:

  1. سید شہزاد ناصر5 جنوری، 2017 کو 9:07 PM

    بہت خوب انتخاب
    نئے شعرا میں یہ تنوع اور ندرت خیال ہی نظر آتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ @سید شہزاد ناصر صاحب

    بجا فرمایا آپ نے۔ مقبول نقش کے ہاں جو رنگ نظر آتا ہے وہ اب خال خال ہی نظر آتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں