غزل
ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے
جیسے کسی غریب کا خستہ مکاں گرے
مانا کہ اے ہوا تُو نہیں گن سکی مگر
دیکھا تو ہوگا پات کہاں سے کہاں گرے
پہلے ہی زخم زخم ہے دھرتی کا انگ انگ
پھر کیا ضرور ہے کہ یہاں آسماں گرے
یُوں صحنِ تیرگی میں پڑی چاند کی کرن
جیسے خموش جھیل میں سنگِ گراں گرے
ہم قیسؔ ، اپنی بھوک مٹانے کے واسطے
صیّاد کا تھا جال جہاں پر وہاں گرے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں