[ہفتہ ٴ غزل] ۔ کیا ملال اب کے دھریں سینۂ پُر خار کے پاس ۔ فاتح الدین بشیر

غزل

کیا ملال اب کے دھریں سینۂ پُر خار کے پاس
گُلِ آزار کھِلے خرمَنِ پِندار کے پاس

ایک ویرانی ہے تعمیرِ مسلسل کی اَساس
حسرتیں آن بَسیں مرقدِ مِعمار کے پاس

مَوت اَنگُشت بدنداں ہے یہ کس کا ہے نصیب
اُستُخواں دار پہ، سر زانُوئے دِلدار کے پاس

باس تھی جن میں بَدَن کی ترے، ہم آبلہ پا
رِہن رکھ آئے ہیں وہ سانس بھی گلزار کے پاس

اَصلِ آئینہ فقط ریگ مگر صُورت کَش
نُور کس آنکھ کا ہے دیدۂ زنگار کے پاس

عُذر طُرفہ سا ہے اک لغزشِ پیہم کا بشیرؔ
کار آموزیِ عصیاں کا، سیہ کار کے پاس

فاتح الدین بشیرؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں