احسان دانش کی دو خوبصورت غزلیں
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے
کوئی نسیم کا نغمہ کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے
خدا نہ کردہ زمیں پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے
اتر پڑے ہیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کے لئے
ترے سلیقۂ ترتیب نو کا کیا کہنا
ہمیں تھے قریۂ دل سے نکالنے کے لئے
کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لئے
یہ شعبدے ہی سہی کچھ فسوں گردوں کو بلاؤ
نئی فضا میں ستارے اچھالنے کے لئے
ہے صرف ہم کو ترے خال و خد کا اندازہ
یہ آئنے تو ہیں حیرت میں ڈالنے کے لئے
نہ جانے کتنی مسافت سے آئے گا سورج
نگار شب کا جنازہ نکالنے کے لئے
میں پیش رو ہوں اسی خاک سے اگیں گے چراغ
نگاہ و دل کے افق کو اجالنے کے لئے
فصیل شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لئے
کنوئیں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں اے دانشؔ
کمند تھی جو مناروں پر ڈالنے کے لئے
****
پُرسشِ غم کا شکریہ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی، درد ہے زندگی نہیں
دور تھا اک گزر گیا، نشہ تھا اک اُتَر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بے رُخی نہیں
تیرے سوا کروں پسند، کیا تیری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں، قیمتِ بندگی نہیں
لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے، وقت نہ وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقیں کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں
دل کی شگفتگی کے ساتھ، راحتِ مےکدہ گئی
فرصتِ مہ کشی تو ہے، حسرتِ مہ کشی نہیں
زخم پہ زخم کھا کے جی، اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر، لبوں کو سی، عشق ہے دل لگی نہیں
دیکھ کے خشک و زرد پھول، دل ہے کچھ اس طرح ملول
جیسے تری خزاں کے بعد، دورِ بہار ہی نہیں
احسان دانش