غزل
دن بھلے جیسا کٹے، سانجھ سمے خواب تو دیکھ
چھوڑ تعبیر کے خدشوں کو، ارے! خواب تو دیکھ
جھونپڑی میں ہی بنا اپنے خیالوں کا محل
گو پُرانا ہے بچھونا !تُو نئے خواب تو دیکھ
تیرا ہر خواب مسّرت کی بشارت لائے
سچ ترے خواب ہوں اللہ کرے، خواب تو دیکھ
دل شکستہ میں ہوا، جب بھی مِرا دل ٹوٹا
حوصلے آگے بڑھے، کہنے لگے، خواب تو دیکھ
تجھے وہ بات بھی آئے گی سمجھ یار مرے
جو ہے ادراک کی سرحد سے پرے، خواب تو دیکھ
گتھیاں ساری سُلجھ جائیں کہ ہوں اور سِوا
تو ذرا ہاتھ بڑھا، تھام سِرے، خواب تو دیکھ
نیند کے خواب ترے خوف کے گھر ہیں بھی تو کیا
نیند کو چھوڑ تو جب صبح اُٹھے خواب تو دیکھ
بہت ہی خوبصورت غزل ہے، احمد بھائی! بے انتہا داد قبول فرمائیے۔
جواب دیںحذف کریںویسے میرا تو اب کسی بھی قسم کے خوابوں پر ایمان نہیں رہا لیکن میں دوسروں کے لئے ضرور چاہوں گی کہ وہ خواب دیکھنا نہ چھوڑیں۔ :)
سائرہ
بہت ہی خوبصورت! کیا بات ہے احمد بھائی!!!
جواب دیںحذف کریںآپ کی ایسی غزلوں کی فضا ہی الگ ہوتی ہے۔ واہ واہ!!
سلامت رہیں احمد بھائی!
نیاز مند
ظہیر احمد
بہت شکریہ سائرہ
جواب دیںحذف کریںخوش رہیے۔
بہت شکریہ ظہیر بھائی
جواب دیںحذف کریںآپ کی حوصلہ افزائی کسی نعمت سے کم نہیں ہے میرے لیے۔