کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نظم
گریباں پسینے میں تر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اُدھر کا مسافر اِدھر ہو رہا ہے
جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کوئی پہلواں سیٹ میں دھم گیا ہے
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے
کوئی ناک دیوار پہ تھم گیا ہے
کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جواں کچھ سرِ پائے داں اور بھی ہیں
دریچوں میں سروِ رواں اور بھی ہیں
قطاروں میں بیوی میاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہجوم اور بھی معتبر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
وہ اک پیل تن یوں سمٹ کر کھڑا ہے
کہ پیٹ اس کا دھڑ سے الگ جا پڑا ہے
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے
مقدر کو دیکھو کہاں جا لڑا ہے
تماشا سرِ رہگزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو خوش پوش گیسو سنوارے ہوئے تھا
بہت مال چہرے پہ مارے ہوئے تھا
بڑا قیمتی سوٹ دھارے ہوئے تھا
گھڑی بھر میں سب کچھ اتارے ہوئے تھا
بے چارے کا حلیہ دگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کوئی بے خبر گُل فشاں ہو گئی ہے
تو لاری کی لاری جواں ہو گئی ہے
طبیعت اچانک رواں ہو گئی ہے
ملاقات اُن سے کہاں ہو گئی ہے
نظر سے طوافِ نظر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کبھی پیش سے گھٹ کے پس ہو گئی ہے
کسی پیچ میں پیچ کس ہو گئی ہے
چلی ہے تو بانگِ جرس ہو گئی ہے
رکی ہے تو ٹھَس ہو کے بَس ہو گئی ہے
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
سید ضمیر جعفری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں