غزل
یہ کیا ستم ہے کہ ، احساسِ درد بھی کم ہے
شبِ فراق ستاروں میں روشنی کم ہے
اک ایسی موجِ کرم تھی نگاہِ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفانِ تشنگی کم ہے
قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے، غمِ جستجو ، کبھی کم ہے
عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انساں سے آگہی کم ہے
تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے
نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے
شاہد صدیقی
حیدر آباد۔ ہندوستان
1911 ~ 1962ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں