غزل
سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے
شام ڈھلی تو دیپ جلانا بھول گئے
دل آنگن میں دھوپ غموں کی کیا پھیلی
جگنو آنکھوں میں مسکانا بھول گئے
تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے
صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے
جب قحطِ اجناس ٹلا احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے
سِسکی سِسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ لگانا بھول گئے
تیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے
بے صبری یادیں رستے میں آن ملیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے
بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لئے
ہم بھی احمدؔ گیت سہانا بھول گئے
سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے
شام ڈھلی تو دیپ جلانا بھول گئے
دل آنگن میں دھوپ غموں کی کیا پھیلی
جگنو آنکھوں میں مسکانا بھول گئے
تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے
صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے
جب قحطِ اجناس ٹلا احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے
سِسکی سِسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ لگانا بھول گئے
تیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے
بے صبری یادیں رستے میں آن ملیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے
بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لئے
ہم بھی احمدؔ گیت سہانا بھول گئے
بہت خوب جناب..
جواب دیںحذف کریںکیا خوبصورت غزل کہی ہے احمد صاحب، لاجواب۔ جی خوش ہو گیا۔ اور یہ اشعار تو بہت پسند آئے
جواب دیںحذف کریںتعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے
بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لئے
ہم بھی احمد گیت سہانا بھول گئے
واہ واہ واہ
بہت شکریہ جواد صاحب!
جواب دیںحذف کریں۔
بہت شکریہ وارث بھائی!
جواب دیںحذف کریںیہ غزل زرا پہلے کی ہے سوچا بلاگ پر بھی پیش کردی جائے.
بہت عمدہ جناب
جواب دیںحذف کریںتیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
جواب دیںحذف کریںبادل کیوں بارش برسانا بھول گئے
کیا بات ہے
بلال بھائی، بلاگ پر خوش آمدید ۔
جواب دیںحذف کریںتبصرے اور پزیرائی کے لئے بے حد ممنون ہوں۔