غزل
دیوار پر لکھ دیا گیا ہے
یہ شہر، شکست آشنا ہے
تصویر میں جو دِکھا رہے ہو
کیا واقعی ایسا ہو چکا ہے
دنیا، گھر۔۔۔ مسئلے بہت ہیں
انسان پناہ مانگتا ہے
بس چار دِشائیں خالی کردو
جنگل نے مطالبہ کیا ہے
تم بھی شاید بھٹک گئے ہو
یہ اور کہیں کا راستہ ہے
کچھ رنگ کُھلے ہیں پیرہن کے
کچھ شام کی سیر کا نشہ ہے
بہتر ہے کہ ہم کہیں چلے جائیں
اس شہر میں یوں بھی اپنا کیا ہے
وہ شام، وہ ہم، وہ تم۔۔۔ زمانہ
دورانیہ مختصر رہا ہے
کچھ ٹھیک سے گفتگو نہیں کی
کچھ عجلت نے پھنسا دیا ہے
خاموش کیوں ہو نوید صادق؟
پھر کوئی کہیں چلا گیا ہے!
نوید صادق